Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

 اکثر ایسا ہی ہوا ہے، اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، 

میں جب نماز کا انتظار کرتا ہوں، اذان سے لطف اندوز ہوتا ہوں، وضو سے مخاطب ہوتا ہوں، جائے نماز سے محبت کرتا ہوں، تو کوئی نہ کوئی نقطہ، کوئی نہ کوئی شک، کوئی نہ کوئی سوال حل ضرور ہو جاتا ہے۔ 

آج کی عصر بہت خوبصورت تھی۔ اور سب سے بڑی خوبصورتی یہ تھی، کہ مجھے اور کوئی کام نہیں تھا، میں نے عصر پڑھنی تھی، اور پھر سوچنا تھا، کیا کروں۔ 

میرا دل کر رہا تھا یہ مختصر سی نماز طویل ترین ہو جائے۔ 

لیکن ابھی دوسری رکعت میں تھا، کہ ایک لہر سی اٹھی، اور پھر اٹھتی ہی گئی۔ 

’انسان ذرا ذرا سی تکلیف پر جزع و فزع اختیار کر لیتا ہے، شکوہ و شکائت کرنے لگتا ہے، اور بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور اتہام و الزام تک بھی پہنچ جاتا ہے، لیکن یہ نہیں سوچتا، کہ اگر اللہ تعالیٰ اس دین پر جان کی قربانی دینے کی آزمائش ڈال دے، تو کیا کرے گا۔ چند دنوں کی تکلیف، دن کے کسی حصے میں چند گھنٹوں اور لمحوں کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی، تو سوچو، پوری زندگی قربان کرنی پڑے تو کیا کرو گے‘۔

مجھے بات سمجھ آ گئی۔ بلکہ اس کی تفصیل میں میں خود چلا گیا۔

اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ، یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ، وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ، وَمَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ، فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ، وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (التوبہ)

بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے، اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل بھی کیے جاتے ہیں، یہ سچا وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے، خوش رہو اس سودے سے جو تم نے اس سے کیا ہے، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنت کا وعدہ تو ملا ہی تب ہے جب اپنے جان و مال اللہ کو سونپنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایمان تو عطا ہی اس وقت ہوا ہے جب جان و مال قربان کرنے کے لئے تیار ہوئے تھے۔ 

اب جان و مال قربان کرنا تو ایک طرف ہم چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر شکوے شکائتیں لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ناشکری، بے صبری اور حسد سے بھری ہوئی دعائیں مانگتے ہیں۔ خواہشوں سے اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں، کہ بے چینی بے یقینی تک لے جاتی ہے۔ 

شہید اپنی جان قربان کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں، اس کے دین پر،

اور ہم اپنے نفس کی چند خواہشات قربان نہیں کر پاتے، 

ہم کچھ عرصے، کچھ دنوں، کچھ گھنٹوں کی پریشانی پر سٹپٹا جاتے ہیں، 

ہم بھول ہی جاتے ہیں، کہ جہاد اکبر تو نفسوں اور خواہشوں کے خلاف جہاد ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے اتنا کچھ دے رکھا ہے،  اور وہ محض چند لمحے، چند گھنٹے، چند دن کا تقاضہ کر رہا ہے اس میں سے، تکلیف یا پریشانی بھیج کر، 

نہ زندگی لے رہا ہے، نہ مال و جائیداد، 

اور ہم اتنا بھی نہیں برداشت کر پا رہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کے تقاضے سمجھنے اور ان پر پورا اترنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments: