Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

ابھی سارا آئی تھی

 ابھی سارا آئی تھی، ہنستی مسکراتی ہوئی، میں نے کہا خیر ہے؟ کہتی ہے نائنٹی نیمز نکالنے ہیں اللہ تعالیٰ کے، وہ جو آپ صبح کو پڑھتے ہوتے ہیں۔ 

”اچھا، ویری گڈ یار، ان کا کیسے خیال آیا“ میں فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔ 

”وہ مجھے بھی بڑے اچھے لگتے ہیں، میں بھی پڑھتی ہوں موبائل سے۔ میرا دل کرتا ہے، میرے پاس پرنٹ فارم میں بھی ہوں“۔

”یار یہ تو بڑی اچھی بات ہے، مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا آپ کو اچھے لگتے ہیں“۔

”مجھے تو بہت ہی اچھے لگتے ہیں“ اس نے چہک کر کہا۔

آج کل میرا سارا سے ایک مذاق چل رہا ہے، میں اسے دن میں ایک آدھ بار کہہ دیتا ہوں، تم دادی لگتی ہو اپنی، یہ یہ کام کرتی ہوئی، اور مجھے لگتا ہے جیسے اسے یہ سن کر کچھ خوشی سی محسوس ہوتی ہے۔ 

اس کی بہت سی عادتیں اپنی دادی جان جیسی ہیں بھی۔

بہرحال، بات یہ ہوئی کہ ایک دن میں نے یونہی قرآن شریف کے اندرونی حصے میں جلد کے ساتھ چپکائے، ننانوے اسماء الحسنیٰ پڑھے، بس یونہی بچپن کی یاد تازہ کرنے کے لئے،

”میں جب کالج میں پڑھتا تھا تو میں نے اسماء الحسنیٰ کی کتابت کر کے، اپنی چھت پر کڑیوں کے درمیان لگا رکھی تھی، تاکہ لیٹے لیٹے جب بھی میری نظر اوپر ہو، مجھے پڑھنے کو مل جائیں“ میں نے جیسے اپنی بیوی سے کوئی سیکریٹ شئیر کیا ہو۔ 

پھر ادھر ادھر کی باتوں میں بات ختم ہو گئی، لیکن اگلے دن جب تہجد اور فجر کے بعد میں تلاوت سے لطف اندوز ہو کر، قرآن شریف جزدان میں لپیٹ رہا تھا، تو میری بیوی کہتی ہے آپ نے ننانوے اسماء الحسنیٰ نہیں پڑھے آج۔ 

”اتنا اچھا لگا تھا کل انہیں سنتے ہوئے“ وہ بولی۔ 

”اچھا پڑھ لیتے ہیں، ان کا کیا ہے“ مجھے ڈر تھا کہ یہ ہر روز کا معمول بن گیا، تو گراں نہ گزرنے لگے۔ لیکن میں نے سوچا، تھوڑا سا ٹائم لیتے ہیں، ہر روز کا معمول بھی بن گیا، تو کیا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں، اندر سے تو مجھے بھی پیارے لگتے تھے۔ 

میں تو ویسے بھی کوئی کام کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا ہوتا ہوں، کوئی کہہ دے سہی۔ اپنے آپ شروع کرتے ہوئے مجھے ذرا جھجک سی آتی ہے۔ 

اور پھر واقعی معمول بن گیا۔ میں اب ہر روز اپنی بیوی سے پوچھے بغیر، سب سے آخر میں اسماء الحسنیٰ پڑھ کر کلوز کر دیتا ہوں سب کچھ۔ 

بعض دفعہ بچے اٹھ چکے ہوتے ہیں اس وقت، اور سن بھی لیتے ہیں۔ 

میرا مقصد بھی یہی ہوتا ہے، کہ دین اور دین کے معاملات ان کی یادوں کا حصہ بن جائیں۔ ان کے لاشعور کا حصہ بن جائیں۔ 

سارا پرنٹ لے کر اوپر چلی گئی، تو حسن کہتا ہے، پاپا وہ ویڈیو لگائیں جو آپ سنا کرتے ہیں نائنٹی نائن نیمز کی۔ 

”وہ پی ٹی وی والی؟“ میں نے پوچھا۔ 

”جو بھی آپ سنا کرتے ہیں“۔

میں نے پی ٹی وی پر چلنے والی ننانوے اسماء الحسنیٰ کی ویڈیو لگا لی۔ 

شب برأت ہے، اور میرے بیوی بچوں نے کوئی پروگرام بنائے ہوئے ہیں، چھوٹی چھوٹی سی، معصوم معصوم سی، عبادتوں کے۔ میں نے سوچا چلو ماحول بن جائے گا۔ مجھے بھی انسپیریشن مل جائے گی کچھ۔ 

اور پھر اسماء الحسنیٰ کی ویڈیو لگتے ہی میں کسی اور سی دنیا میں پہنچنے لگا۔ 

”کیسی کیسی خوبصورت آوازوں سے نوازا ہے اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو، اور خوش نصیبی سے، کہ انہوں نے اپنی آوازوں کو دین کی اشاعت کے لئے استعمال کیا ہے۔ 

اس وقت امی اور ابو زندہ تھے، میرے جتنی ہی عمر ہو گی اس وقت امی کی۔ ابھی سب کچھ قائم تھا، ہمارا گھر، امی ابو کی صحت، بھائی صاحب۔ 

یہ کتابت مجھے اس وقت کتنی پرفیکٹ محسوس ہوتی تھی، اور یہ میوزک، کسی صحرائی عرب کی یاد دلاتا تھا۔ کتنا خوبصورت لگتا تھا تصور ہی تصور میں کسی عربی صحرا کا نقشہ۔ 

یہ باریک سی آواز کتنی پیاری ہے کسی بندے کی۔ سب سے منفرد اور سب سے خوبصورت۔ 

یہ گرداب اور بھنور سے، یہ سمندر اور لہریں۔ 

ہائے کیسی خوبصورت اور دل میں اترتی ہوئی آواز ہے۔ 

میں جب پڑھتا ہوں تو متکبر تک پڑھتا ہوں، اور الخالق سے شروع کرتا ہوں، یہ قاری صاحب المتکبر کو الخالق سے جوڑ رہے ہیں۔ 

یہ سمیع و بصیر پر پہنچتے پہنچتے جو آواز کی بلندی ہے، وہی تو اصل مزہ ہے۔ میں اسی تک تو پہنچنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ 

لیکن میں اپنے گھر میں اتنی اونچی بلندی تک پڑھتے ہوئے جھجکتا ہوں۔ 

یہ ”ر“ کتنی خوبصورت لکھی ہوئی ہے کسی نے۔ 

یہ ناموں کا پیچھے اور آگے ہونا بھی کتنا خوبصورت لگتا تھا بچپن میں۔ 

مجھے یاد ہے ”البر“ کی ادائیگی پر میں اور شاہد بھائی بڑا محظوظ ہوا کرتے تھے، بہت خوبصورت ادائیگی تھی۔ 

’میں نے اللہ تعالیٰ کے انسانوں سے متعلق اسماء الحسنیٰ علیحدہ کرنے تھے‘ مجھے یاد آیا۔ 

اور میں دیکھنے لگا، کہ کون کون سے نام مخلوق سے متعلق ہیں، اور کون کون سے اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات مبارکہ سے متعلق۔ 

بہت اچھی کتابت ہے، اور یہ المقتدر، المقدم، الموخر کی ادائیگی۔ 

الضار کتنا خوبصورت ادا کیا ہے، میں تو اس طرح سے نہیں ادا کر سکتا۔ 

یہ باریک آواز کتنی خوبصورت ہے درمیان میں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ور پھر یہ اسماء الحسنیٰ کئی بار رپیٹ کیے گئے، اور پھر ایک وقت مجھے محسوس ہوا، کہ بچے شائد اپنے کچھ دوسرے کاموں میں مصروف ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اور پھر میری بیوی کے ایک جملے سے میرا بھی سارا نشہ ہرن ہو گیا:

”سو نفل پڑھ کر میری ٹانگیں کانپنے لگی ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے جان نکل رہی ہے“۔

”یار تمہیں کس نے کہا تھا سو نفل پڑھو، تم اپنی ہمت سے بڑا کام کیوں کرنا چاہتی ہو ہمیشہ، مجھے کبھی دیکھا ہے یہ کام کرتے ہوئے“ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی میں کیا بولوں اور کیا بول رہا ہوں۔ 

بچے ہنسنے لگے۔ 

”پاپا ہمیشہ ایسی ہی بات کرتے ہیں“۔

”یار میرا مطلب ہے بندہ اپنی ہمت بھی تو دیکھے نا۔ نفل پڑھنے کی ہمت نہیں ہے تو تسبیح پڑھ لو“۔

”میں تو بتا کر ہی پھنس گئی“ میری بیوی نے زارا سے سرگوشی کی۔ 

”یار مجھے تو الرٹ کر دیا نے آپ نے“۔ میں بولا۔ 

”اچھا کوئی بات نہیں، اب میں تسبیح پڑھ رہی ہوں بس“۔

بچے ہی ہی ہی کرتے رہے،

اور میں بھی خاموشی سے یہ پوسٹ لکھنے میں لگ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عبادتوں سے محبت اور احساسات جوڑنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 

No comments: