یہ مارچ اپریل کے دن بڑے خوبصورت ہوتے ہیں، ہلکی ہلکی سی ہوائیں چلتی ہیں، جھکڑ سے، چھوٹے چھوٹے سے وا ورولے، سڑکوں کے کنارے دھول اور ککھ کان کو گھماتے ہوئے، اِدھر کی گرد اٹھا کر اُدھر، اور اُدھر کی اِدھر ڈالتے ہوئے۔ دھوپ کی چمک بھی بڑی خوبصورت ہوتی ہے، خشک خشک سی گلیوں میں تھوڑی تھوڑی سی کچی مٹی کو بھی سفید سفید سی دکھانے لگتی ہے۔
اور اگر مسجد کسی چھوٹے سے باغ یا پلاٹ کے قریب ہو، جہاں درختوں سے گرنے والے پتے ارد گرد کی گلیوں میں بکھرے رہتے ہوں، اور جہاں پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں مسجد میں وضو کرتے، اور نماز پڑھتے، اور دعائیں مانگتے بھی سنائی دے رہی ہوں، تو اور بھی بھلا محسوس ہوتا ہے۔
میری جامع مسجد کا جمعہ آج بہت ہی برکتوں بھرا تھا، بہت ہی رحمتوں بھرا۔ دو تین لمحے تو بہت ہی خوبصورت تھے۔
میں عام طور پر درمیانے دروازے کے قریب بیٹھتا ہوں، باہر برآمدے میں، دروازے سے ایک طرف، صحن سے آگے، جہاں باغ میں کھلنے والے دروازے سے آ رہے ہوا کے جھونکے بھی محسوس ہوتے رہتے ہیں، اور پیچھے سے پڑنے والی دھوپ کی چمک بھی۔
جہاں مجھے اپنے سامنے مسجد کی بڑی بڑی کھڑکیوں کے باہر اگے ہوئے پیڑ اور پودے لہلہاتے دکھائی دیتے ہیں، اور جہاں سے مسجد سے باہر گلی کے مکانوں پر پڑنے والی دھوپ میں، سایوں کی آمیزش صاف دکھائی دیتی ہے۔
دھوپ کی چمک اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ لٹھے کا پرانا سوٹ بھی نیا محسوس ہوتا ہے۔ میں رکوع میں جاؤں تو دروازے سے آنے والی روشنی اور دھوپ اس سفید رنگ کو اور بھی چمکا دیتی ہے۔ اور ہوا کے جھونکوں کی تو کیا ہی بات تھی۔
مسلسل چلتی، مسلسل آتی ہوئی ہوا اتنی خوبصورت نہیں لگتی، جتنی جھونکوں اور جھکڑوں کی صورت میں چلتی ہوئی ہوا اچھی لگتی ہے۔ یونہی انجانے میں کوئی جھونکا ٹکراتا ہے، اور کرتے کے گھیرے اڑاتا ہوا آگے گزر جاتا ہے۔
ایک موقعے پر جب میرے سامنے والا دروازہ کھلا، اور منبر والے ہال کی خوشبوؤں بھری ہوا، میرے چہرے سے ٹکرائی، تو میرے جسم و جاں معطر ہو گئے ہوں جیسے۔ میں ہال کمرے کے دروازے سے آنے والے اس ہوا کے جھونکے کی تازگی اور خوشبو میں کھو سا گیا ہوں جیسے۔ میں سارا جمعہ اس دروازے کے کھلنے، اور اس سے آنے والے ہوا کے جھونکوں کا انتظار ہی کرتا رہا ہوں جیسے۔
بہت ہی خوبصورت اور پر لطف کیفیت رہی۔
خاص طور پر جب پہلی چار سنت ادا کر کے میں اسی طرح تشہد میں بیٹھا ہوا تھا، اور وہیں اپنے دل میں اللہ کا ذکر کر رہا تھا، اور وہیں موذن نے اذان سنا کر روح کو ٹھنڈک پہنچائی، اور وہیں امام صاحب نے خطبہ ادا کر کے، ایمان کو تازگی بخشی، اور میں اسی طرح تشہد میں بیٹھا رہا۔
میرا جسم دروازہ کھلنے سے آنے والے جھونکوں میں لپٹا، اور میرا دماغ میرے کپڑوں کی سفید چمک سے سرشار۔ روزے کا سرور و مستی، اور جامع مسجد کا جمعۃ المبارک۔ اللہ تعالیٰ نے ساری نعمتیں اکٹھی کر دی تھیں۔ ظاہر و باطن، دل و دماغ، دنیا و آخرت۔ فطرت اور عبادت۔ محبت اور عقیدت۔ توفیق اور سعادت۔
بہت ہی خوبصورت، خوشگوار، خوشبودار انداز کی نماز جمعہ نصیب ہوئی، الحمد للہ۔ میری حالت یہ تھی، کہ میں بس اب باقی کی نماز ادا کر کے گھر آنا چاہتا تھا، اور شام تک اس سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا میرا دھیان کسی اور چیز پر جائے، اور میری یہ کیفیت زائل ہو جائے۔
میری ساری تسبیحات اور دعاؤں میں میری کیفیت میرے سامنے رہی، میں بار بار شکر ادا کروں، کہ یا اللہ تونے کیسی خوبصورت نماز عطا فرمائی ہے، سبحان اللہ۔
لیکن ایک لمحہ ابھی رہتا تھا، ایک لمحہ جب میں مسجد سے نکلنے کے لئے اٹھ رہا تھا۔ مسجد کے صحن میں لگے سائبان میں پتہ نہیں کیسے کوئی چڑیاں اور لالیاں، اور ڈھاڈو آ بیٹھے تھے، اور زور زور سے چہچہا رہے تھے۔ شائد کوئی بلبل بھی تھی۔
بس وہ لمحہ کمال تھا۔ وہ لمحہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ میں صحن میں کھڑا سائبان کو دیکھوں، کیسی خوبصورت روشنی تھی، کیسی خوبصورت آوازوں سے سجی ہوئی۔
میں باہر نکلا اور سفید سفید سی دھوپ میں مسجد سے ملحقہ باغ کے جنگلوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
وہ لمحہ میرا آئیڈیل تھا، میرا حاصل۔
میں بچپن سے اس لمحے کا دلدادہ ہوں۔ گلیوں میں اڑتی ہوئی ہلکی ہلکی سی دھول، سفید سفید دھوپ، ہوا کے جھونکوں میں اڑتے ہوئے کپڑے، اور اپنے سائے کی ایک خاص شکل جو مجھے بہت پسند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عبادتوں کو خوبصورت لمحوں سے وابستہ کرنے کی خوش نصیبی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment