ترجیح دینے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن ایک بار بندہ آخرت کو دنیا پر، اللہ تعالیٰ کو بندوں پر، اور دین کو نفس پر ترجیح دینا شروع کر دے سہی، باقی سب کچھ اپنے آپ ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔
بندہ نماز ادا کرنے کا پختہ ارادہ کر لے، کہ نماز کو اول وقت میں، اور پوری خوشی اور محبت سے ادا کرنا ہے۔ نماز کو ادا ہی نہیں کرنا، نماز کا اہتمام کرنا ہے، نماز کو سجانا ہے، نماز سے لطف اندوز ہونا ہے۔
بس اب بندے کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔
بندہ جسمانی صفائی کا خیال رکھنے لگتا ہے، غسل سے رہنے لگتا ہے۔ اسے محسوس ہونے لگتا ہے، کہ باوضو اور بے وضو رہنے میں کیا فرق ہے۔ اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ نماز کا لطف اور خوشی تو جسمانی صفائی میں پوشیدہ ہے۔ وہ صاف ستھرے کپڑے پہننے لگتا ہے، پانچوں وقت نہیں، تو ایک وقت دانت ضرور صاف کرتا ہے، سر اور داڑھی کے بالوں کو اچھی طرح ترشوا کر رکھنے لگتا ہے، اور بیٹھنے اٹھنے میں لباس اور بالوں کی بے ترتیبی سے اجتناب کرنے لگتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے، کہ جتنا صاف ستھرا ہو کر وہ نماز پڑھتا ہے، اتنا ہی نماز کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے، اتنا ہی اسے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ بندہ اپنے جسم اور لباس کی صفائی پر مزید توجہ دینے لگتا ہے، وہ ایسے ڈیزائنز کے کپڑتے پہننے لگتا ہے، جو اسے نماز میں مانع نہ ہوں، ایسے رنگ پہننے لگتا ہے، جو اسے نماز کی تروتازگی محسوس کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ الغرض وہ جوتے، سویٹر، کوٹ، ٹوپی، سب کچھ نماز کے مطابق پہننے کی کوششیں شروع کر دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے، اس کی کوئی چیز نماز میں رکاوٹ نہ بنے، بلکہ رکاوٹ بننے کی بجائے، نماز میں مدد کرے، اور نماز کے کیف و سرور کو دوبالا کرے۔
اسے محسوس ہوتا ہے کہ جسمانی صفائی، غسل، وضو اور لباس کے لئے اسے کھانے پینے کی عادتوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، اور وہ کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے کے مشاغل بدلنا اور از سر نو ترتیب دینا شروع کر دیتا ہے۔
اسے محسوس ہوتا ہے، کہ جسمانی صفائی کے لئے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا بہت ضروری ہے۔ وہ اپنے کمرے اور گھر میں صفائی کا خیال رکھنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ ہر چیز جھاڑ پونچھ کر، صاف چمکا کر رکھنے لگتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے، کہ گرد و غبار، اور جالے، شیطان کی جائے پناہ ہیں، اور جہاں کہیں یہ چیزیں آ جائیں، گرد و غبار، جالے، میل کچیل، گندگی، بدبو، تعفن، گھٹن، کوڑا، وغیرہ وہاں شیطان کا گزر اور بسیرا لازمی ہے۔ وہاں نماز سے سستی، کاہلی، غفلت لازمی ہے۔ وہ اپنی نماز کو بچانے کے لئے، اپنی نماز کی تروتازگی بچانے کے لئے، اس کی خوبصورتی اور خوشی، اس کا کیف و سرور بچانے کے لئے، اپنے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنا شروع کر دیتا ہے۔
بندے کو محسوس ہوتا ہے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے سے اس کی نماز کا لطف دوبالا ہو گیا ہے۔ اس کی نماز کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے ہیں۔
اب بندہ محسوس کرتا ہے، کہ جس طرح جسمانی صفائی سے اسے اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں مدد ملی، اپنے کمرے اور گھر، اپنے دفتر یا اپنی دکان کو صاف ستھرا رکھنے میں مدد ملی، اس کی سمجھ آئی، اسی طرح اسے محسوس ہو رہا ہے، کہ اگر وہ اپنے دماغ کو بھی صاف ستھرا رکھے گا، تو نماز کے لطف و سرور میں اور بھی اضافہ ہو گا، اور سستی و غفلت سے مزید نجات مل جائے گی۔ اسے محسوس ہوتا ہے، کہ اس کے دماغ کی کچھ گندگی کی وجہ سے وہ اپنے مقصود کو پانے میں ناکام ہے ابھی تک۔ وہ نماز ادا تو کر رہا ہے، اور اسے لطف بھی آ رہا ہے، لیکن جتنی گنجائش ہے، وہ اتنی گنجائش کو حاصل نہیں کر پا رہا۔
بندہ اپنی عادتوں کو، اپنی مصروفیات، اپنے مشاغل کو، اپنے میل ملاقات کو، اپنے اوقات کار کو، بدلنے اور بہتر بنانے کی سوچنے لگتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے، کہ اس کا سارا ٹائم ٹیبل اس کی نمازوں کے اوقات کے تابع ہونا چاہئے، اور ان کا معاون ہونا چاہئے۔ اسے ایسی مصروفیات اور مشاغل اور واقفیتوں سے گریز کرنا چاہئے، جو اس کی نماز کے راستے میں مانع یا حائل ہوں۔
بس بندہ بہت سی چیزوں کو ترک کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ وہ ان مشاغل اور مصروفیات کو رکھ لیتا ہے، جو اسے نماز اور آخرت کی طرف لے جاتی ہیں، اور باقی سب کچھ چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اپنی عادتوں اور رویوں پر بھی غور کرتا ہے، اپنے خیالات، احساسات، جذبات، اور کیفیات پر بھی غور کرتا ہے، اور فیصلہ کرتا ہے، کہ وہ ان تمام چیزوں سے اجتناب کرنے لگے گا، جو اس کی نماز کے لطف کو زائل کرتی ہیں، یا جو اسے آخرت کی طرف پیش قدمی سے روکتی ہیں۔
بس اس سفر سے ہو کر جب بندہ گھر آتا ہے، تو اسے محسوس ہوتا ہے، وہ بہت کچھ اسلام میں داخل ہو چکا ہے۔
اور یہ دین کے ایک رکن کی برکت ہے۔
اس کے ماں باپ اس سے خوش ہیں، اس کے بال بچے اس سے محبت کرتے ہیں، اور اس کے رشتے دار اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔
اس کا گھر جنت کی مثال ہے، اور اس کا لائف پارٹنر پاکیزگی اور خوش اخلاقی کا منبع و نمونہ، اور اس کے بچے انتہائی مؤدب، سمجھدار، نیک اور خوش اخلاق۔
اور تب بندہ کسی خالی سے لمحے میں اپنے معبود کو سرگوشی کر کے کہتا ہے، کہ اے میرے خالق و رازق، اے میرے پیارے اللہ، تو بہت ہی رحیم و کریم ہے۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے تمام ارکان کی برکتوں سے مالا مال ہونے کی سعادت عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment