Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

اللہ تعالیٰ سے محبت، قربت اور اپنائیت

 اللہ تعالیٰ سے محبت، قربت اور اپنائیت، دوسرے انسانوں کے لئے مغفرت اور ہدائت طلب کرنے کے لئے ہوتی ہیں، نہ کہ ذاتی انتقام میں ان کی بربادی چاہنے کے لئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعا تو عبادت کا مغز ہے، 

عبادت کی جان ہے، 

لیکن دعا کرنے والا اس وقت ایمان اور سلامتی کے دھانے پر پہنچ جاتا ہے، جب وہ یہ سمجھتا ہے، کہ اس کی دعا کیوں قبول نہیں ہو گی، اس کی دعا قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس کی دعا کو ضرور قبول ہونا چاہئے۔ 

بس یہ حالت ایسی ہے جس کے بعد گمراہی بھی شروع ہو سکتی ہے، آزمائش بھی، اور اللہ تعالیٰ سے جدائی بھی۔ نعوذ باللہ۔ 

ظاہر ہے اس ذہنی حالت میں انسان اپنے آپ کو زیادہ عقلمند، زیادہ حق بجانت سمجھنے لگتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ سے اپنے قرب، اور قرب کی وجوہات، اپنی عبادات وغیرہ پر ناز ہونے لگتا ہے۔ اسے دوسرے انسان اپنے سے کمتر محسوس ہونے لگتے ہیں، اور اس کا خیال ہوتا ہے، کہ انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان کی کوئی سنی جائے، سنی تو بس اسی کی جانی چاہئے۔

الغرض اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے۔ کسی کو بد دعا نہ دیں، کسی کو لعنت نہ کریں، کسی کو کافر نہ کہیں، کیونکہ یہ سب اسی دماغی کیفیت کی باتیں ہیں۔ 

کبھی یہ مت سوچیں، کہ فلاں فلاں حالات میں، یا فلاں فلاں شخص کے خلاف اللہ تعالیٰ آپ کا ساتھ دے گا۔ کبھی یہ مت سوچیں کہ آپ بے قصور ہیں، یا آپ حق پر ہیں، اور آپ کے دشمنوں کے خلاف اللہ تعالیٰ آپ کا ساتھ دے گا۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایمان یا اسلام یا نیکی یا عبادات کو، دوسری مخلوق یا دوسرے انسانوں کو تباہ و برباد کرنے کے حق کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ 

ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے خیر و عافیت اور پناہ طلب کریں، 

ہمیشہ بخشش مانگیں، اور ہمیشہ اپنے دشمن یا مخالفیں کی ہدائت کی دعا کریں۔ 

آپس میں غلط فہمیاں دور کرنے اور محبت بڑھانے کی دعا کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے تعلق میں مسابقت سے محفوظ فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments: