بات یہ تھی کہ بچے صرف دو ہی پریزنٹ تھے، اور وہ بھی پڑھنے سے گریزاں تھے۔ یا تو وہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتے تھے، یا آپس میں، پڑھنے کا موڈ ان کا بالکل نہیں تھا۔ میں بھی شائد پڑھانے کے موڈ میں نہیں تھا، دو بچوں کو کیا پڑھاؤں، سلیبس تو مکمل ہو چکا ہے، اب کیا کروں۔
میں نے انہیں آپس میں باتیں کرتے چھوڑا اور کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔
پتہ نہیں کس چیز کے درخت ہیں، لگتے تو آم کے ہیں، لیکن میں نے کبھی آم لگے ہوئے نہیں دیکھے ان پر۔ نئے نئے سبز اور سرخی مائل پتوں سے لدے ہوئے درخت جھوم رہے تھے، اور بہار کی فرحت بخش ہوا نے کھڑکی کے قریب ایک خوشبو سی پھیلا رکھی تھی۔
یونہی مجھے کچھ قرب سا محسوس ہوا، کچھ سوچ سی آ گئی۔
اللہ تعالیٰ کو ہی سب کچھ ماننے میں، اسے ہی اپنا سب کچھ ماننے میں، کیسی لذت رکھی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے۔ توحید کیسی خوبصورت اور پر مسرت ہے اگر محسوس کریں تو۔ بندہ جس قدر توحید پر قائم ہوتا جاتا ہے، اتنا ہی اس کی محبت بڑھتی جاتی ہے اللہ تعالیٰ سے۔
’میں نے کیا کرنے ہیں پیسے، مجھے کیوں انتظار رہتا ہے پیسوں کا۔ ضرورتیں اور ذمہ داریاں بھی تو اسی کی دی ہوئی ہیں، اسے ہی فکر ہو گی نا انہیں پورا کرنے کی بھی‘ میں نے جیسے اپنے آپ سے بھی چھپ کر ایک سوچ محسوس کی۔
’اللہ تعالیٰ کو تکلیفوں، پریشانیوں اور ضرورتوں سے بلند ہو کر چاہیں تو کتنا مزہ آتا ہے اس کی چاہت میں۔ شائد یہی خلوص ہے وہ جس کا انتظار کرتا ہے انسانوں سے۔
ویسے دیکھا جائے تو اور کسی چیز کی ضرورت بھی تو نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہی ہمارا مقصود ہے، توحید ہی ہماری منزل ہے، تو اور کسی چیز کی تو ضرورت بھی نہیں رہتی۔
اللہ تعالیٰ نے روزوں کی توفیق دے کر ایک اور انعام کیا ہے مجھ پر۔ ایک اور دائرہ کھینچ دیا ہے میرے ارد گرد۔
مجھے ایک دم خوف سا آ گیا۔ اگر کوئی غلطی ہو گئی، اور اللہ نے یہ سب انعامات واپس لے لئے۔ اور مجھے ایک جھرجھری سی آ گئی، اور میرا دل رو پڑا۔
اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم ہونے کا خوف بھی کیسا تکلیف دہ خوف ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی محبت کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
مال و اولاد، روپیہ پیسہ، عہدہ، جائداد۔
’یا اللہ!‘ میں نے وہیں کھڑکی کے پاس کھڑے کھڑے سوچا۔
میرا دل کر رہا تھا اس کلاس سے فارغ ہو کر کسی تنہائی میں بیٹھوں اور اس سے ڈھیروں باتیں کروں۔
اور پھر تنہائی ملی تو میں نے قرآن پاک کھول لیا۔
روزے سے قرآن پڑھنے کا تو لطف ہی اور ہے۔ جتنا بھوک بڑھتی جاتی ہے، اتنا ہی قرآن پاک کی تلاوت لذیذ سے لذیذ تر ہوتی جاتی ہے۔ میں نے یونہی بیٹھے بیٹھے کوئی ایک سیپارہ پڑھ لیا۔ میری توجہ میرے دل پر تھی، اور میں محسوس کر رہا تھا، کہ کس آئت پر، کس لفظ پر میرا دل زور زور سے دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔
مجھے بڑا لطف آیا۔ میرا اگلا لیکچر پھر اسی کلاس میں تھا، اور میں سوچ رہا تھا پھر اسی طرح کھڑکی کے پاس کھڑا ہو جاؤں گا، اور پھر اسی طرح، اسی طرح کی سوچوں میں کھونے کی کوشش کروں گا۔ بڑا مزہ آیا تھا ایسا کرنے کا پچھلے لیکچر میں۔
وہاں کھڑکی کے قریب میرا ذہن طرح طرح کے تصورات میں کھویا رہا۔ خالق کی محبت، مخلوق کی محبت جیسی تو ہوتی نہیں ہے۔
’بس اصل چیز تو عبادت ہے۔ دولت اور پیسہ تو آئے بھی تو بانٹ دیا کرتے تھے پچھلے لوگ۔ دولت کوئی رکھنے والی چیز تو ہے نہیں۔ اور پھر جو کچھ ملا ہوا ہے وہ کم تو نہیں ہے۔
’یا اللہ تو میرے اطمئنان کا لیول تھوڑا سا نیچے کر دے۔ یا اللہ تو میری ضرورتوں میں تھوڑی سی کمی کر دے۔ یا اللہ زندگی کے بارے میں میرا معیار تھوڑا نیچے لے آ‘ میں نے اپنی طرف سے توبہ کرنے کی کوشش کی ہو جیسے۔
”سر آپ نے پچھلے سال بھی یہی پینٹ پہنی ہوئی تھی، اور کوٹ بھی یہی تھا آپ کا“ ایک بچہ کھسیانی سی ہنسی ہنس کر بولا۔
”یار میں نے دو تین پینٹیں اور دو تین شرٹیں ہی رکھنی ہوتی ہیں۔ اور کوٹ ایک ہی“ میں نے اپنی دنیا سے واپس آتے ہوئے کہا۔
”سر کے شوز بھی ایک ہی ہوتے ہیں“ ایک اور بولا۔
میں مسکرایا۔ بچے مجھے اپنی اپنی گپھاؤں میں گھسیٹ لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
”سر آپ نے بیلٹ کہاں سے لی تھی“ چھوٹا سا حسنین بولا۔
”یار اس بیلٹ کو آٹھ دس سال ہو گئے ہیں، لیدر بیلٹ ہے پیور۔۔۔۔۔“۔
”سر آپ نے وہ اپر پھینک دیا جو آپ پچھلے دنوں پہن کر آتے تھے“۔
مجھے بڑی اچھی طرح اندازہ تھا کہ بچے کیا کہہ رہے ہیں، اور کیوں کہہ رہے ہیں۔ امتحانوں سے ایک دو دن پہلے، بچے اسی طرح کی باتیں کیا کرتے ہیں ٹیچرز سے۔ پڑھنے پڑھانے کے لئے کچھ ہوتا نہیں ہے، اور بچوں کی ٹیچرز میں ازلی ابدی دلچسپی محض کچھ ذاتی عادتوں، اور گھریلو مصروفیات کا پوچھنے تک ہی محدود ہو کر رہتی ہے۔
”بچو، میں ایک بات بتاؤں آپ کو۔۔۔۔۔“ بچے کچھ دیر ہنسنے مسکرانے کے بعد خاموش ہو گئے۔ میں نے سسپنس پیدا کر لیا تھا۔
”سر بتائیں“، ایک بچے سے رہا نہ گیا۔
”بچو، کپڑوں کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ کپڑوں کا کوئی ڈیزائن نہیں ہوتا، کوئی سٹف نہیں ہوتا۔ کپڑے نئے اور پرانے بھی نہیں ہوتے۔ کپڑوں کی بس دو قسمیں ہوتی ہیں“ یہاں تک پہنچتے پہنچتے بچے پوری طرح الرٹ ہو چکے تھے۔
”بچو، کپڑوں کی صرف دو قسمیں ہوتی ہیں، کپڑے یا پاک ہوتے ہیں یا ناپاک۔ اور کچھ نہیں۔ میں صرف پاک صاف کپڑے پہننے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے لئے، نئے پرانے، ایک اور کئی، کوئی معنی نہیں رکھتے“۔
مجھے لگ رہا تھا میں نے اپنی بات پہنچا دی ہے۔
”آج آپ سن رہے ہیں بس، کبھی آپ کو اندازہ بھی ہو جائے گا، کہ میں کیا کہہ رہا ہوں“۔
”سر سمجھ آ گئی ہے“ میری باتیں سننے کا عادی، شرمیلا شرمیلا سا اسمٰعیل بولا۔
میں ایک بار پھر اپنی کلاس سے نکل کر، ملٹی پرپز ہال کی گونجتی فضا میں آ بیٹھا۔ میرے پاس سوچنے کے لئے اب بھی بہت کچھ تھا۔
میرا آخری لیکچر ابھی باقی تھا، اور اس سے پہلے میں نے نماز کی تیاری کرنی تھی۔
میں اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا مسجد کے واش روم چلا گیا۔
یہ مسجد بڑی سوچ سمجھ کر بنائی ہوئی ہے۔ واش رومز بھی باہر ہیں، اور وضو خانہ بھی۔
’مسجد کا تقدس اتنا زیادہ ہے، کہ بغیر وضو مسجد میں داخل ہونے کے امکانات کم سے کم کر دیے گئے ہیں‘ میں نے سوچا۔
’بات یہ ہے کہ ہمیں کفر اور گناہ کے بارے میں کچھ زیادہ ہی سکھا دیا گیا ہے۔ اور اپنے سے زیادہ دوسروں کے کفر اور گناہ کے بارے میں‘ میں نے وضو کا پانی چلیوں سے بھر بھر کر کہنیوں تک بہاتے ہوئے سوچا۔
’خیر جو اپنے آپ کو گناہگار کہتا نہیں تھکتا، اپنی نماز کو ٹکریں کہتا نہیں تھکتا، وہ دوسروں کو بھی خارج از اسلام سمجھنے سے گریز نہیں کرتا۔ وہ دوسروں کی نماز کو بھی نماز ماننے سے نہیں چونکتا‘ میرے ذہن میں ایک عجیب سا سوال پیدا ہو گیا۔
اور یہ وہ سوال تھا جو میں نے آج کی ظہر، اور سارا راستہ گھر آتے سوچنا تھا۔
ظہر بہت خوبصورت تھی، بہت ہی خوبصورت، اور اس پر بہت سے سوال، اور بہت سے مکالمے۔
’یہ جو اللہ تعالیٰ نے لطف و سرور رکھا ہے عبادتوں میں، تلاوتوں نمازوں اور روزوں میں، اور سارے نیک کاموں میں، یہ کوئی بہت بڑا نظام ہے اللہ تعالیٰ کا، کوئی بہت بڑا سسٹم۔ یہ سب ایسے ہی نہیں ہے۔ جس خالق نے اتنی لذتیں رکھی ہیں اپنی عبادات میں، جس نے توبہ میں اتنی وسعت اور گنجائش پیدا کر دی ہوئی ہے، اور جس نے اپنی رحمت کو اپنے اوپر فرض کر لیا ہوا ہے، وہ خالق و مالک کیسا ہے، اور اس کا ارادہ کیا ہے، ہمیں بار بار سوچنے کی ضرورت ہے۔
راستے میں ایک جگہ میرا دل کیا موٹر سائیکل روک کر ایک جگہ کھڑا ہو جاؤں، اور تفصیل سے سوچوں۔ مجھے کوئی بہت بڑی ڈسکوری کہیں، بہت نیچے، کہیں بہت گہرائی میں، چھپی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن سوچیں اتنی نازک اور مہین تھیں کہ غور کرنے سے پہلے ہی بھولتی جا رہی تھیں۔ میں یاد رکھنے کی سوچتا تو وہ بھول جاتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے موٹر سائیکل کی سپیڈ انتہائی آہستہ کر رکھی تھی، اور چلا بھی فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ کہیں بائیں جانب رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبتوں سے بھرے شب و روز بسر کرنے کی سعادت عطا فرمائے، ٓآمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment