بات دراصل یہ ہے کہ میں نے ایک پرانی سی کتاب میں یہ عبارت پڑھ لی ہے، اور میرے دل کو بھی لگی ہے:
”مسجد کو یوں تو عموماً مگر جمعہ کے روز خصوصاً خوشبودار رکھنا چاہئے، مسجد کی تعظیم و تکریم کی نیت کر کے، اور یہ بھی خیال کر کے، کہ اس کی پاکی اور صفائی اور خوشبو سے ملائیکہ اور مومنین خوش ہوں گے، اور روح اقدس جناب مقدس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسرور ہوں گے، بلکہ خطبہ کے وقت عود سوزی اور مجمر افروزی اور خوشبو کا چھڑکنا مسنون ہے، اور اکثر الناس اس سے غافل ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا محلوں میں مسجدوں کے بنانے کے واسطے، اور اس بات کا حکم دیا کہ مسجدیں پاک اور خوشبودار رکھی جاویں۔ ابو داود۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روائت ہے کہ حضرت عمرؓ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسجد میں ہر جمعہ کو خوشبو سلگاتے تھے۔ اس کو ابو یعلی نے روائت کیا ہے، اور اس کی سند میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہی ہیں، اور امام احمدؒ و غیرہ نے اس کو قابل اعتبار کہا ہے۔۔۔۔۔“۔
یہ عبارت میں نے پندرہ بیس دن پہلے پڑھی تھی، اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا، یہ بعد میں یاد آئے گی، اور میں اسے ڈھونڈ کر بار بار پڑھوں گا۔
میں نے سرسری انداز میں کتاب پڑھی اور پڑھ کر دوسرے کاموں میں لگ گیا۔ لیکن دو چار دن پہلے مجھے یہ عبارت اپنی پوری آب و تاب سے یاد آئی، اور میں نے جیسے بے چین ہو کر کتاب دوبارہ ڈھونڈی اور دوبارہ شروع سے پڑھنے لگا۔
مجھے لگتا ہے وہ میری آج کل کی پلو بک بن چکی ہے۔ مجھے اس کتاب سے گویا محبت ہو گئی ہے۔
اب بات یہ ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی، میں اس سنت پر عمل کیسے کروں۔ کون سی خوشبو لگا کر معطر کروں اپنی جامع مسجد کو، اور کس نماز میں لگاؤں۔ مجھے تو جمعہ ہی افضل محسوس ہو رہا ہے۔ لیکن خوشبو کون سی لوں۔ اگر بتی تو کوئی خاص نہیں لگتی۔ اور پھر سلگاؤں کس طرح جا کر۔ اگر کسی نے منع کر دیا تو کیا کہوں گا۔
میں بس دد چار دن سے یہی سوچ رہا ہوں۔ کل میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور مجھے اپنا کام آسان ہوتا محسوس ہوا۔
”یار کوئی اچھا سا ائیر فریشنر کتنے کا آ جاتا ہے؟“ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
”دو ڈھائی سو کا بھی آ جاتا ہے، پانچ چھ سو کا بھی۔ کیوں، کیا کرنا ہے“۔
”یار میرا دل کر رہا ہے، اس جمعہ کو ایک ائیر فریشنر لے جاؤں ساتھ۔ ساری جگہوں پر چھڑکاؤں مسجد میں، ختم کر کے لاؤں اسے“۔
”یہ دلیل کہاں سے پڑ گئی“ میری بیوی نے مسکرا کر میری جانب دیکھا۔
”یار۔۔۔۔۔“
بچے بھی ہنسنے لگے۔
”بہرحال، پیسے دے دیں، آ جائے گا“ میری بیوی نے ہاتھ بڑھا کر پیسوں کا مطالبہ کیا۔
”یار اپنے پاس سے لے آؤ، میں بعد میں دے دوں گا“ میں نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
بات تو ہم نے کچھ اور بھی تفصیل سے کی تھی، لیکن بچوں کی شمولیت سے ڈر کر میں اپنے کمپیوٹر پر آ بیٹھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی، کہ خوشبو چھڑکانے کا بہترین طریقہ کون سا ہو سکتا ہے۔
”ائیر فریشنر لے جاؤں گا اچھا سا، موتیے کی خوشبو والا، اور کسی بچے کو دے دوں گا جا کر، کہ پہلی صف سے شروع ہو جائے، اور ساری مسجد میں چھڑکا دے۔ بس خالی کر کے لے آئے واپس“۔
مجھے اپنی یہ سوچ سب سے زیادہ پریکٹیکل محسوس ہوئی۔
”لیکن اگر کسی نے پوچھا تو کیا کہوں گا، کیوں کر رہا ہوں یہ سب۔ اور پھر اگر کسی نے کہا کہ ائیر فریشنر ٹھیک نہیں ہوتا مسجد میں چھڑکانا، تو کیا جواب دوں گا اس کو“۔
میرے شکوک و شبہات اب بھی ختم نہیں ہوئے، اور میں اب بھی یہی سوچ رہا ہوں، کہ اس بار جمعۃ المبارک کو یہ سب کیسے کروں گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی مسجدوں کو معطر و معنبر رکھنے کی سعادت عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment