پچھلے دنوں مجھے بچپن کی ایک یاد آ رہی تھی، امی نے دوپٹہ رنگنا تو مجھے دوپٹہ دے کر بھیجنا کہ میں ایسا رنگ لے آؤں۔ میں نے رنگوں والے کے پاس جانا، اسے دوپٹہ دکھانا، اور اس نے رنگ دے دینا۔ اس کے سامنے رنگوں کے بہت سے ڈبے پڑے ہوتے تھے، وہ پیتل کے چمچے سے ان ڈبوں کو کھولتا، اور ایک کاغذ میں تھوڑا تھوڑا رنگ ڈال کر پڑیا بناتا، اور میرے ہاتھ میں تھما دیتا۔
میں وہ پڑیا لا کر امی کو دے دیتا۔ امی دوپٹہ رنگتی تو وہ بالکل اس دوپٹے جیسا ہوتا، جو لے کر میں رنگ لینے گیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران ہوتا ، اور آج بھی، کہ وہ رنگوں والا کتنا پرفیکٹ انسان تھا۔ وہ خشک رنگوں کی مقدار کو کیسے اتنا ناپ تول کر ڈالتا، کہ ان میں کوئی کمی بیشی نہ آتی۔ مجھے یاد ہے، بعض دفعہ وہ پڑیا بنا لیتا، لیکن کچھ یاد کر کے کھولتا، اور کسی ڈبے سے، جیسے دو دانے کسی رنگ کے، پھر ڈالتا اور دوبارہ پڑیا بناتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پچھلے دنوں ایک وڈیو دیکھی تھی، اس میں کوئی گاڑیوں کے رنگ بنا رہا ہوتا ہے، وہ بھی اتنا ہی پرفکٹ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کسی کام کو بار بار کرنے سے، توجہ سے کرنے سے، بعض دفعہ اتنی پرفیکشن حاصل کر لیتا ہے، کہ سیکنڈز کا فرق بھی باقی نہیں رہتا۔ انسان کے دماغ اور ہاتھوں، اور باڈی میں فرق ختم ہو جاتا ہے۔ مہارت، تجربے، ٹائمنگ کی جتنی بھی فلاسفی ہے، ٹکنیک ہے، بندہ سمجھنے کی کوشش کرے تو حیران رہ جاتا ہے۔ پیچھے وہی رہتا ہے جس میں اپنے کام کی پرفیکشن کم ہوتی ہے۔ جو ایک طویل مدت بعد بھی اپنے کام کو پرفیکٹ نہیں کر پاتا۔ جو اپنے کام کے نقائص دور نہیں کر پاتا۔
اور دیکھنے میں یہی آیا ہے، کہ جس کسی نے بھی اپنے کام کے نقائص دور کر لئے، پرفیکشن حاصل کر لی، پھر شہرت، دولت، عزت اس کا مقدر بن گئی۔ کامیابیاں قطار در قطار اس کے دروازے پر سرنگوں نظر آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پاس بہت کچھ ہے اس موضوع پر بولنے کے لئے، میں نے بہت کچھ سوچ رکھا ہے۔ لیکن آج جس حوالے سے میرے ذہن میں یہ بات آئی، اس نے سوچ کے کچھ مزید در وا کر دیے۔
میں ظہر پڑھ رہا تھا، اور سوچ رہا تھا، کہ نماز بھی پریکٹس، اور پرفیکشن مانگتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم زندگی کے کاموں میں پرفیکشن حاصل کر لیتے ہے، اپنے آرٹس اور کرافٹس میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔ نماز بھی ہم سے رسوخ اور مہارت کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر کوئی نماز میں پرفیکشن حاصل کر لیتا ہے، تو جو مرضی کر لے۔ میں نہیں سمجھتا اس کی کوئی حاجت باقی رہے، یا دعا باقی رہے۔ وہ واصل باللہ ہو جائے گا۔ اسے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہو گا۔ اس کے وجود کو خوشبو عطا ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ موضوع اوپن اینڈڈ رکھنا چاہتا ہوں۔ ہر شخص اپنے اپنے انداز میں مہارت یا پرفکشن حاصل کرے۔ یہی بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نمازوں اور تلاوتوں پر توجہ دینے کی خوش نصیبی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment