Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

ہمارے سکولوں میں بچوں کی شرارتیں



 ہمارے سکولوں میں بچوں کی شرارتیں، بدتمیزیاں، نالائقیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہر ٹیچر جانتا ہے، ہر ایڈمن باخبر ہے۔ جو جو باتیں ہمارے سکول کے واش رومز میں لکھی ہوتی ہیں، وہ بھی ایک اوپن سیکرٹ ہیں۔

کام نہ کرنا، ڈسپلن نہ رکھنا، لڑائی جھگڑے، سب کچھ ایک عام سی بات ہے۔ عام سی بات تو نہیں ہے، لیکن کیونکہ ہر جگہ ہو رہا ہے، ہر روز ہو رہا ہے، اس لئے اسے روٹین کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ بہت سی چیزیں ختم ہوتی جا رہی ہیں، اور بہت سی باتیں جڑ پکڑ رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بچوں کے بارے میں کوئی نیگیٹو بات کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ نہ کلاس میں، نہ کلاس سے باہر۔ نہ کولیگز میں، نہ گھر والوں سے۔
بہرحال میری کلاس کے بچے بھی کوئی دوسروں سے مختلف نہیں ہیں۔ سیشن کے شروع میں، مجھے لگتا تھا اس سیشن کو گزارنا ناممکن ہے۔ آپ بچے کو نہ پنشمنٹ دے سکتے ہوں، نہ جرمانہ لگا سکتے ہوں، نہ اونچی آواز سے ڈانٹ سکتے ہوں، تو ایسا لگتا ہے آپ پڑھا ہی نہیں سکتے۔ چالیس پینتالیس بچے آخر کس طرح خاموشی سے بیٹھیں، اور آپ کو پڑھانے دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شائد یہ بات معیوب ہو، شائد یہ بات بتانے والی نہ ہو، لیکن میں اس لئے بتا رہا ہوں، کہ اس بات کے پیچھے کوئی نئی اخلاقیات، کوئی نئی فلاسفی چھپی نظر آ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کلاس میں ڈسپلن قائم کرنے کے طریقے پڑھتا رہتا ہوں۔ آزماتا بھی رہتا ہوں۔ ایک دن جب کلاس میرے کنٹرول سے باہر تھی، دو تین پیرنٹس کی شکائیتیں آ چکی تھیں، اور دو تین ٹیچرز زیر عتاب تھے، میں دوسروں کو دیکھ کر عبرت پکڑنے والا انسان، پہلے ہی سہم چکا تھا۔ میں نے سوچ رکھا تھا، کہ بچے پڑھیں، نہ پڑھیں، انہیں کہنا کچھ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار تو ایسا ہوتا ہے، کہ پورا پورا پیریڈ گزر جاتا ہے، اور بچے چپ ہی نہیں کرتے۔ آپ کا منہ چڑاتے ہیں، طرح طرح کی آوازیں نکالتے ہیں، اور مسلسل ہنستے جاتے ہیں۔
اس دن بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔
بہرحال کہیں موقع پا کر میں نے کہا:
”میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں آج، اور میرا خیال ہے، اگر میں وہ بات کر لوں، تو میں سمجھوں گا، میں نے آج کے سبق کا خلاصہ سنا دیا ہے آپ کو“۔
ہمارا لیسن ایک سائنس فکشن پر مشتمل تھا۔ بچے تھوڑا سا خاموش ہو گئے۔
”اگر آپ مکمل خاموشی سے وہ بات سن لیں، جو ایک دو جملوں سے زیادہ نہیں ہے، تو مجھے لگتا ہے میں اس کے بعد کوئی بات نہیں کروں گا۔ آپ دل کھول کر ہنسیں اور مسکرائیں“۔
بچے مسکراتے مسکراتے خاموش ہو گئے۔
”آپ کو پتہ ہے میں آپ سے کہا کرتا ہوں، کہ اگر بولنا ہی ہے، تو انگلش میں بولنے کی کوشش کریں۔ بس آج بھی کچھ ایسی ہی بات کر رہا ہوں۔ اگر آپ کا پڑھنے کو دل نہیں کرتا، کام کرنے کو دل نہیں کرتا، تو آپ موبائل استعمال کریں۔ زیادہ سے زیادہ وقت موبائل اور کمپیوٹر کو دیں۔ گھر جا کر آٹھ آٹھ دس دس گھنٹے موبائل استعمال کریں۔ موبائل اور کمپیوٹر کا کوئی ہارڈوئیر سافٹ وئیر ایسا نہیں ہونا چاہئے، جسے آپ جانتے نہ ہوں۔ آپ کا گیمز کھیلنے کو دل کرتا ہے، تو گیمز کھیلیں، ضرور کھیلیں۔ ساری ساری رات کھیلیں۔ اگر یہ کتابیں بور لگتی ہیں، تو نہ پڑھیں۔ لیکن وقت ضائع نہ کریں۔ نہ سکول میں نہ گھر میں“۔
میں حیران تھا کہ کلاس میں ایسے جیسے سپل پھونک دیا ہو۔ بچے پوری طرح متوجہ تھے۔ یہ کون تھا جو انہیں موبائل اور انٹرنٹ یوز کرنے کا کہہ رہا تھا۔ انہوں نے مجھے بولنے دیا ۔
”بچو، موبائل اور انٹرنٹ پر اپنا کیرئر بنائیں۔ پندرہ پندرہ سولہ سولہ سال کے بچے، بلنئیرز بنے ہوئے ہیں۔ آپ بھی بنیں۔ بچو، آپ کو گیمز کا شوق ہے، تو گیمز کھیلیں۔ لیکن ان پر غور بھی کریں۔ ان کے فالٹس نوٹ کریں۔ سوچیں اگر آپ کوئی گیم بنائیں تو کس طرح بنائیں۔ بچو لاکھوں روپے کا کام ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی آئیڈیا آتا ہے، تو سمجھ لیں لاکھوں روپے کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ جو سائٹ بھی استعمال کریں، یہ سوچ کر کریں، کہ اگر آپ یہ سائٹ بناتے تو کیسی بناتے۔ اگر آپ یہ سافٹ وئیر بناتے تو کیسا بناتے۔ اگر آپ کو کسی چیز میں فالٹ نظر آ رہا ہے، بہتری کی گنجائش نظر آ رہی ہے، تو سمجھ لیں آپ جینئس ہیں۔ آپ اس سے سپیرئر ہیں۔
بچو، اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی، کہ آپ کو جس کام میں انجوائمنٹ مل رہی ہو، اس سے انکم بھی آنے لگے۔ آپ کا کیرئر بھی بن جائے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں، پچھلے ایک ڈیڑھ مہینے میں میرے تجربات بہت خوبصورت رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بچوں کے بارے میں اچھا سوچنے کا انعام دیا ہے۔ آخر چھ مہینے بعد میری کلاسز کا ڈسپلن آئیڈیل نظر آنے لگا ہے۔
بچے کمپیوٹر، موبائل، ارننگ سائٹس، نئے نئے آئیڈیاز، اور گیمز اور سافٹ وئیرز کی باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ میں پندرہ بیس منٹ کتاب پڑھاتا ہوں، اور پھر بچے کہتے ہیں، سر کیرئر میکنگ کی باتیں کرتے ہیں۔ اور ایسے سنتے ہیں، جیسے اور کوئی کام نہ ہو۔ دم سادھ کر۔ پوری توجہ سے۔ کوئی دوسرا بچہ درمیان میں بولے تو اسے اشارے سے چپ کراتے ہیں۔ میں نے بس اتنا ہی کیا ہے نا، کہ بچوں کو اپنی مرضی سے پڑھانے کی بجائے، جیسے وہ پڑھنا چاہتے ہیں، ویسے پڑھانا شروع کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن مجھے ایک بچے نے بتایا، کہ اس نے یوٹیوب چینل بنا رکھا ہے، اور اس کا چینل مونیٹائز بھی ہو گیا ہے۔ اگلے دن میں نے اس بچے کو کلاس کے سامنے بلایا، اور اس سے ریکوئسٹ کی، کہ وہ اپنے ایکسپیرئنس سے دوسرے بچوں کو آگاہ کرے۔
وہ دن ایک عجیب دن تھا۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا، کہ یہ بچے کتنے انٹیلیجنٹ اور کتنے سوپر ہیں۔ شائد ہی کوئی بچہ ہو، جس نے بات کرنے کی خواہش ظاہر نہ کی ہو۔ سارا پیریڈ ایک عجیب سی ہلچل میں گزر گیا۔ ہر بچہ بولنا چاہتا تھا۔ ہر بچہ ڈائس پر آ کر اپنے ایکسپیرئنس شئیر کرنا چاہتا تھا۔ میں حیران تھا کلاس کا سب سے خاموش اور سویا رہنے والا بچہ بھی کتنا بیدار تھا۔ وہ موبائل گیمز کا استاد تھا۔ وہ ایسے ایسے سوال پوچھ رہا تھا، کہ میں دنگ رہ گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اسے اس ڈائس پر کھڑے بچے سے زیادہ علم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سوچ رہا تھا، ان بچوں کے راستے میں رکاوٹ کیا ہے۔ ہم اساتذہ، سکول ایڈمن اور پیرنٹس۔ بچوں کے خراب ہونے کے خوف سے ہم انہیں خراب کرتے جا رہے ہیں، ہم یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کا صرف ایک فالٹ ہے، صرف ایک قصور ہے، کہ وہ بچے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری پوسٹ بہت لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ شائد میں یہ باتیں پھر کبھی کروں۔ لیکن میں سکول ایڈمن اور پیرنٹس سے التجا کرتا ہوں، کہ وہ بچوں کو غلط کہنے کی بجائے، اور انہیں توڑ مروڑ کر اپنے پیچھے لگانے کی بجائے، انہیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ وہ بہت عقلمند ہیں۔ ان کی اخلاقیات بہت بہتر ہیں۔ ان کا اعتماد قابل رشک ہے۔ انہیں اپنی زندگی کا مقصد ڈھونڈنے دیں۔ جب مقصد مل جائے گا تو باقی کی عادتیں بھی ٹھیک ہو جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بچوں کی بہتر سمجھ عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ

No comments: