Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

 بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہو گا جیسا ایک انسان کو دوسرے انسان کا قرب محسوس ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ایسی ہی محسوس ہوتی ہو گی جیسی ایک انسان کی محبت دوسرے انسان کو محسوس ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ کی یاد بھی ایسے ہی آتی ہو گی جیسے ایک انسان کو کسی دوسرے انسان کی یاد آتی ہے۔  وہ سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ  کسی کو ہدایت دیتا ہے، یا اپنی طرف بلاتا ہے تو اس کی آواز بھی ایسے ہی سنائی دیتی ہو گی جیسی ایک انسان کو بلاتے ہوئے دوسرے انسان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بیچارے کبھی انسانی موازنوں سے نکل ہی نہیں پاتے۔ وہ کبھی دیکھنے سننے چھونے چکھنے سونگھنے کے حواس خمسہ کی دنیا سے آگے ہی نہیں جا پاتے۔ اللہ کا قرب، اللہ کی محبت، اللہ کی یاد، اللہ کی آواز، اللہ کو دیکھنا، اللہ کی سننا، اللہ کی طرف جانا، اللہ کا ہو کر رہنا، وہ کبھی ان مرحلوں کو انسانی تعلقات کے مرحلوں سے علیحدہ ہو کر، یا اوپر اٹھ کر سمجھ ہی نہیں پاتے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اللہ تعالیٰ کی بات کرنے والے ہر انسان کو اسی طرح سمجھتے ہیں، جیسے وہ کسی بادشاہ یا وزیر کو ملنے والے یا جاننے والے کو سمجھتے ہیں۔ ان کے ذہن میں اللہ والا بھی اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح کوئی بادشاہوں یا امراء یا مصاحب یا وزراء سے تعلقات والا ہوتا ہے۔ یا کسی بہت بڑے سیاستدان یا بزنس مین کو جاننے والا ہوتا ہے۔ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں لگتی، کہ اللہ کے قریب جانے والوں، اور نہ جانے والوں میں ایک ہی فرق ہوتا ہے، کہ، اللہ کے قریب جانے والوں نے اپنی مرضی اور اپنی خواہشوں اور اپنے ارادوں کو اللہ کے سپرد کر دیا ہوتا ہے۔ وہ امراء اور وزراء کے پاس بیٹھنے والوں کی طرح خود غرضی اور من مانی کرنے والے نہیں ہوتے، کہ جسے چاہیں اللہ تعالیٰ کے پاس جانے دیں، اور جسے چاہیں نہ جانے دیں۔ وہ تو ایک موصل ہیں، ایک میٹریل ہیں جس سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی تجلی یا برکت یا رحمت یا نور یا ہدایت یا بخشش  یا ایسی ہی کوئی اور نعمتیں، اس کے دوسرے انسانوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جس طرح اپنے انسانوں تک اپنی نعمتیں پہنچانے کے لئے، اس نے فرشتوں اور پیغمبروں اور کتابوں کو استعمال کیا ہے، اسی طرح وہ اپنی نعمتیں اپنے دوسرے انسانوں تک پہنچانے کے لئے اپنے نیک بندوں کو استعمال کر لیتا ہے۔ نیک بندے جو اپنے تمام گناہوں، اپنی تمام کمیوں کمزریوں کو لے کر اس کے سامنے پیش ہو جاتے ہیں۔ اس میں کون سی اچنبھے کی بات ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کو بادشاہ اور اس کے بندوں کو مصاحب سمجھنے والوں نے تو ساری زندگی دوسروں کے بتائے ہوئے طریقوں سے ہی اللہ کو ماننے یا اسے بلانے کا کام کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا ہے، کہ دوسروں کی طرح وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کے قریب ہو سکتے ہیں، اسے جان سکتے ہیں، اس سے اپنی التجا پیش کر سکتے ہیں۔ 

ان کے ذہن میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے، جنہیں وہ ساری زندگی عبور نہیں کر پاتے۔ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آتی، کہ یہ رکاوٹ تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ 

وہ سمجھتے ہیں وہ گنہگار ہیں، اور اللہ گنہگاروں کے قریب کیوں آئے گا، یا انہیں اپنے قریب کیوں آنے دے گا، وہ گنہگاروں کی کیوں سنے گا۔ وہ تو اپنے نیک اور محبوب بندوں کی ہی سنے گا، انہی کے قریب ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آتی، کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے مقرب ترین بندے بھی اپنے آپ کو گنہگار اور معافی کا خواستگار سمجھ کر ہی آ رہے ہوتے ہیں۔ وہاں تو اس کے برگزیدہ ترین بندے بھی اس کی رحمت اور اس کی بخشش پر بھروسہ کر کے ہی پہنچے ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے، کہ وہ اپنے گناہوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جانے سے کتراتے نہیں ہیں۔ وہ جیسے اور جس حالت میں بھی ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی حالت میں بھی اس کے سامنے جانے سے گریز نہیں کرتے۔ اور شائد یہ کہ وہ معافی کی خواہش لے کر جاتے ہیں، اور کوئی خواہش لے کر نہیں جاتے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی بارگاہ میں حاضر ہونے، اور معافی کے لئے اپنا آپ پیش کرنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


No comments: