Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

 ہم ناشتے کے لئے نکلنے لگے، تو میں نے کہا ’وضو کر لو، نماز کا ٹائم ہو جانا ہے راستے میں ہی‘۔

میں اس دوران جرابیں پہن کر اپر پہن رہا تھا اپنا ۔
دراصل مجھے حسن کی باڈی لینگوئج سے لگ رہا تھا، کہ ناشتہ اس نے انار کلی سے لانا ہے آج۔ میں نے بھی مائنڈ بنا لیا کہ ظہر وہیں سڑک کے کنارے شیڈ والی مسجد میں پڑھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاک ٹی ہاؤس کے سامنے، فٹ پاتھوں پر کتابوں کی سیل لگتی ہے ہر اتوار کو۔ میرا خیال تھا اگر بچوں نے ناشتہ انار کلی سے لانا ہوا، تو میں وہاں ایک نظر کتابیں بھی دیکھتا آؤں گا۔ ویسے تو میں نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دیا ہوا ہے، خاص طور پر انگریزی کی کتابوں کو تو بالکل ہاتھ نہیں لگاتا، لیکن کبھی کبھی کوئی لہر سی آتی ہے، اور میں کچھ نہ کچھ پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ آج کل جین آسٹن پر دھیان گیا ہوا ہے میرا۔
بات یہ ہے کہ ایم اے انگریزی نے مجھے جو کچھ سکھایا تھا، میں وہ بھولنا نہیں چاہتا۔ میں وہ سیکھنے، سوچنے، محسوس کرنے کا انداز ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ میں اس طرح سے دیکھنا، سننا چھوڑنا نہیں چاہتا۔ خوش گمانی، خوش خلقی، خوش فہمی، خوش خیالی، کتنی خوشیاں تھیں ایم اے انگریزی میں۔ کیسی دنیا تھی پرائڈ اینڈ پریجوڈس کی دنیا۔
بعض دفعہ مجھے لگتا ہے، مجھے ان سب چیزوں نے دین پڑھنے میں بڑی مدد دی ہے۔ کیٹس کے خوبصورتی، محبت اور خوشی کے فلسفے کو ہی میں نے دین میں ڈھونڈا ہے آخر۔ ورڈزورتھ والی آؤٹر اور انر ورلڈ کو ملانے کی کوشش ہی کر رہا ہوں میں دین میں بھی۔
بہرحال میرا خیال تھا کتابیں دیکھنے سے پہلے یا دیکھتے ہوئے، اگر ظہر کا وقت شروع ہو گیا تو نماز وہیں، سڑک کے کنارے والی اوپن ائیر مسجد میں پڑھ لوں گا۔
بڑی خوبصورت سی مسجد ہے۔ میں نے گرمیوں میں بھی وہاں نماز پڑھی ہوئی ہے کئی بار۔ اوپر ایک سائبان سا بنایا ہوا لوہے کا، سبز رنگ کی فائبر لگا کر، پیچھے وضو کی جگہ بھی ہے، اور صفیں بھی بچھائی ہوئی ہیں بہت اچھی سی۔ باقاعدہ اذان بھی ہوتی ہے، اور کوئی جماعت بھی کرواتا ہے۔ جماعت کا باقاعدہ وقت شائد ڈیڑھ بجے ہے۔ میں سوا بارہ یا ساڑھے بارہ بجے ظہر پڑھ کر آگے نکلنا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اور حسن کتابیں دیکھتے دیکھتے اس مسجد کے پاس آئے تو کوئی ساڑھے بارہ کا ٹائم ہو چکا تھا۔ ہم نے اپنے وزٹ کا اگلا حصہ موقوف کیا، اور مسجد میں چلے گئے۔
مجھے یاد ہے چاروں طرف اتنی ٹریفک اور شور کے باوجود، مسجد کی حدود میں داخل ہوتے ہی ایک طرح کی خاموشی اور سکوت کی فضا محسوس ہوا کرتی تھی۔ دیواریں نہ ہونے کے باوجود ایسے لگتا تھا جیسے کسی غیر مرئی دیواروں نے، باہر کے شور کو اندر آنے سے روک دیا ہے۔ یہ بہت بڑی خاصیت تھی اس مسجد کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیفیت بہرحال آج بھی موجود تھی۔ ہم نے نسبتاً علیحدہ سی جگہ دیکھ کر نماز نیت کر لی۔ نماز کا لطف اسی طرح تھا۔ نماز اسی طرح پر لطف تھی۔ ایسی نمازیں پر لطف ہی ہوا کرتی ہیں۔ حدود و قیود سے ماورا، کسی اور ہی دنیا میں لے جانے والی۔ میں نے تو جب بھی ایسی مسجدوں میں نماز پڑھی ہے، ایک الگ ہی مزہ محسوس کیا ہے۔ کسی نے کچھ اینٹیں لگا کر ایک نشانی سی بنا دی ہوتی ہے۔ چاک سے یا کسی رنگ سے، عام سی لکھائی میں ”قبلہ“ لکھ دیا ہوتا ہے، تیر کا نشان بنا دیا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کہیں ایک چھوٹا سا نلکا بھی لگا دیا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ کوئی امام صاحب کے مصلّٰی کا نشان بنا کر، وہاں ایک چھوٹی سی محراب میں، سورۃ یس بھی رکھ جاتا ہے۔ بڑی پیاری نمازیں ہوتی ہیں ایسی مسجدوں میں، تازہ دم کر دینے والی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت انار کلی کی اس شیڈ والی مسجد میں ظہر پڑھتے ہوئے، ایک سوچ جیسے عود کر آئی ہو، جیسے اس نے سمجھانے کا یہی وقت مناسب اور بہترین سمجھا ہو۔
”یہ بھی خضوع و خشوع ہے۔ یہ تیرا گھر سے وضو کر کے نکلنا، گھر سے سوچ کر نکلنا، کہ ظہر وہاں شیڈ والی مسجد میں پڑھوں گا۔ یہ بھی خضوع و خشوع ہے۔ چاہے اس وقت سوچ کچھ اور چل رہی ہے، چاہے تیرا دھیان کتابوں میں گھسا ہوا ہے، لیکن یہ بھی خضوع و خشوع ہے۔ اگر تم صبح سوچ لیتے، کہ انار کلی جانا ہے، اور ظہر شیڈ والی مسجد میں پڑھنی ہے، اور وضو گھر سے کر کے نکلنا ہے، تو اور بھی زیادہ خضوع و خشوع ہوتا۔ اگر تم رات سوچ کر سو جاتے، کہ صبح انار کلی جانا ہے، اور ظہر وہاں شیڈ والی مسجد میں پڑھنی ہے، اور وضو گھر سے کر کے نکلنا ہے، تو یہ اور بھی زیادہ خضوع و خشوع ہوتا۔ نماز کا دھیان جہاں سے بھی شروع ہو گا، نماز کا اہتمام جہاں سے بھی شروع ہو گا، اور جتنی دیر تک بھی رہے گا، وہ سب وقت خضوع و خشوع میں شمار ہو گا۔ چاہے اس میں دوسری سوچیں بھی شامل ہوں۔
نماز میں کھڑے ہو کر، نماز کا خیال رکھنا، اللہ تعالیٰ کا احساس رکھنا، حضوری محسوس کرنا، ایک اور بھی اچھی شکل ہے خضوع و خشوع کی۔ لیکن یہ بھی خضوع و خشوع ہے۔ نماز کی سوچ آتے ہی جو ہمارے اندر سنجیدگی اترتی ہے، جو ہمارے اندر ادائیگی کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو ہم تیاری پکڑتے ہیں، یا جو اہتمام کرتے ہیں، یا جو پروگرام ترتیب دیتے ہیں، وہ سب خضوع و خشوع میں شامل ہوتا ہے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”پاپا ہم سال کے پہلے دن، یکم جنوری کو بھی ادھر آئے تھے، اسرار خودی ڈھونڈتے ہوئے، اور آج اکتیس دسمبر ہے“۔ مسجد سے باہر آتے ہوئے، حسن نے کوئی میموری شئیر کی۔ مجھے یہ بات بھی بڑی سٹرائیک کی۔ زندگی میں چیزوں کے رپیٹ ہونے، اور اپنے آپ ہونے کے موضوع پر غور کرنا میرا بڑا پرانا مشغلہ ہے۔
فیسبک میموریز دیکھتے ہوئے مجھے اکثر یہی احساس ہوتا ہے، کہ کچھ دنوں اور کچھ مہینوں میں میری سوچیں ہر سال وہی ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی خوبصورت ظہر تھی بہرحال، یہ شیڈ والی مسجد کی۔ مجھے محسوس ہو گیا، جو آج کی نماز نے سکھانا تھا، وہ سکھا دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نمازوں کی بہتر سے بہتر انڈرسٹینڈنگ عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ

No comments: