”کاش کوئی مقروضوں کی نفسیات کا بھی ذکر کرے، کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، وہ قرض لے کر ناران کاغان کیوں جاتے ہیں، وہ عقیقے سالگرہیں کرتے ہیں، لیکن پیسے کیوں نہیں لوٹاتے۔ میں اکثر کہتا ہوں، پیسوں کی تنگی کی اذیت جو سفید پوش برداشت کرتے ہیں، وہ شائد ہی کوئی کرتا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں قرض لینے کا حق صرف اسے ہے، جس کے گھر میں تین دن کا فاقہ ہو، جس کے پاس ایک جوڑا کپڑے اور دو برتن ہوں، جو کرائے کے مکان میں رہتا ہو، نہ فریج ہو، نہ واشنگ مشین، نہ موٹر سائیکل، وغیرہ۔ ہم سمجھتے ہیں قرض صرف ایسے ہی شخص کو دینا چاہئے، جو اگلے لمحے مرنے والا ہو۔ میں کہتا ہوں کوئی اپنے بیوی بچوں کے چہروں پر خوشی دیکھنے کے لئے بھی قرض لے کر سالگرہ کر لیتا ہے، عقیقہ کر لیتا ہے، ناران کاغان ہو آتا ہے۔ وہ ایک نارمل زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ جاب ہوتی ہے، گھر ہوتا ہے، فیملی ہوتی ہے۔ بس کچھ عرصے سے تنخواہ نہیں بڑھی ہوتی، چالیس چالیس دن بعد تیس تیس دن کی تنخواہ مل رہی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے، شائد کچھ عرصے تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اسے یہ پتہ ہی نہیں ہوتا، کہ جن لوگوں کے سامنے وہ ہنس ہنس کر اپنی عزت نفس بچانے کی کوشش کر رہا ہے، اور جو لوگ اس سے پیسوں کا تقاضہ کر رہے ہیں، وہ سمجھ رہے ہیں، وہ بے حس ہے، بے شرم ہے، جو مقروض ہونے کے باوجود مسکرا رہا ہے، اترا رہا ہے۔ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا، کہ وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں وہ اپنی عزت نفس بچا لے، اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگ جائے۔ کوئی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا، کہ اس کی محبت اور وفاداری، یا بیوی کی ہٹ دھرمی اور ضد، یا اس کی نرم دلی، اور بیوی بچوں کی خود غرضی، اسے یہ سب جینے پر مجبور کر رہی ہے۔ میرے خیال میں چند چور اچکوں کے علاوہ، کوئی کسی سے مانگنا نہیں چاہتا۔ بندہ جواری نہ ہو، شرابی نہ ہو، اور کوئی نہ کوئی کام دھندہ بھی کر رہا ہو، لیکن پھر بھی مانگ رہا ہو، تو سمجھ لیں اس کی بیوی اس کے بس میں نہیں ہے۔
ایسی پوسٹ پڑھ کر ہر وہ شخص اپنے بیوی بچوں پر سختی کر سکتا ہے، انہیں چھوڑ سکتا ہے، انہیں مار پیٹ سکتا ہے، اپنے باس سے لڑ سکتا ہے، نوکری چھوڑ سکتا ہے، چوری چکاری کر سکتا ہے، جو یہ سب کچھ اپنی خوشی کے لئے نہیں، اپنے بیوی بچوں کی خوشی کے لئے کر رہا ہے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں عام طور پر کومنٹ نہیں کرتا لیکن یہ اوپر والا کومنٹ میں نے ایک پوسٹ پر کیا ہے، جس کا مفہوم تھا، کہ لوگ اپنا قرض نہیں لوٹاتے، لیکن سیر سپاٹے اور ہلے گلے پر نکل جاتے ہیں ۔
چند ایک کو چھوڑ کر، اکثر مقروض بے بس ہوتے ہیں۔ ان میں چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ حالات ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہر آنے والا دن ان کی سختی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ ان کے خرچے ہر صورت میں ان کی آمدنی سے زیادہ ہوتے جاتے ہیں، چاہے ان کی آمدنی دو کروڑ ہو جائے۔ ان کے رشتہ دار، ان کی ضرورتیں، ان کی آفتیں، ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں۔ ان کے بیوی بچے ان کے کہنے میں نہیں ہوتے۔
انسان نرم دل ہو، اور اسے اپنی عزت نفس سے زیادہ اپنے بچوں کی خوشی عزیز ہو، تو وہ قرض ضرور لے گا۔ وہ اپنی بیوی کے چہرے پر کچھ لمحوں کی خوشی دیکھنے کے لئے چوری چھپے قرض کا تحفہ ضرور لائے گا۔ اس کا خیال ہوتا ہے، کہ حالات بس ایک دو مہینے، دو چار مہینے، ایک دو سال کے لئے ہی خراب ہوتے ہیں، پھر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کبھی اسے ضرورت سے زیادہ پیسے ملیں گے، تو وہ سب قرض لوٹا دے گا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ بیس پچیس تیس سال گزر جاتے ہیں۔ سخت دل، ظالم، ضدی، انا پرست قسم کے لوگ شائد ٹھیک رہتے ہیں۔ لیکن نرم دل۔ نرم دلی انسان کو بہت بری طرح مرواتی ہے۔ ایمانداری، وفاداری، سچ، نرم دلی وغیرہ کے امتحان ختم ہونے میں ہی نہیں آتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، میں نے ساری زندگی ان دو ہاتھوں کا مطالعہ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں اس موضوع پر کوئی غیبی ڈاکٹرائن لکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہن میں جو لینے والے کا امیج بٹھایا ہوا ہے، وہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ لینے والے اور ضرورتمند کی نفسیات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ دینے والے نہیں ہیں، بہت ہیں، ہماری توقع سے بھی زیادہ ہیں، اور بہت اچھے ہیں، بہت نیک دل ہیں، لیکن بیچارے کسی ایسے امیج میں پھنسے ہوئے ہیں، کہ اس سے نکل نہیں پا رہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے ایسے لوگوں کو دینا چاہئے۔ یہ جو ان کو مستحقین کی شکل دکھا دی گئی ہے، کہ وہ ایسے ہوتے ہیں، اس شکل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور ارادوں کو نیک بنائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ