Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

کاش کوئی مقروضوں کی نفسیات کا بھی

 

”کاش کوئی مقروضوں کی نفسیات کا بھی ذکر کرے، کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، وہ قرض لے کر ناران کاغان کیوں جاتے ہیں، وہ عقیقے سالگرہیں کرتے ہیں، لیکن پیسے کیوں نہیں لوٹاتے۔ میں اکثر کہتا ہوں، پیسوں کی تنگی کی اذیت جو سفید پوش برداشت کرتے ہیں، وہ شائد ہی کوئی کرتا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں قرض لینے کا حق صرف اسے ہے، جس کے گھر میں تین دن کا فاقہ ہو، جس کے پاس ایک جوڑا کپڑے اور دو برتن ہوں، جو کرائے کے مکان میں رہتا ہو، نہ فریج ہو، نہ واشنگ مشین، نہ موٹر سائیکل، وغیرہ۔ ہم سمجھتے ہیں قرض صرف ایسے ہی شخص کو دینا چاہئے، جو اگلے لمحے مرنے والا ہو۔ میں کہتا ہوں کوئی اپنے بیوی بچوں کے چہروں پر خوشی دیکھنے کے لئے بھی قرض لے کر سالگرہ کر لیتا ہے، عقیقہ کر لیتا ہے، ناران کاغان ہو آتا ہے۔ وہ ایک نارمل زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ جاب ہوتی ہے، گھر ہوتا ہے، فیملی ہوتی ہے۔ بس کچھ عرصے سے تنخواہ نہیں بڑھی ہوتی، چالیس چالیس دن بعد تیس تیس دن کی تنخواہ مل رہی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے، شائد کچھ عرصے تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اسے یہ پتہ ہی نہیں ہوتا، کہ جن لوگوں کے سامنے وہ ہنس ہنس کر اپنی عزت نفس بچانے کی کوشش کر رہا ہے، اور جو لوگ اس سے پیسوں کا تقاضہ کر رہے ہیں، وہ سمجھ رہے ہیں، وہ بے حس ہے، بے شرم ہے، جو مقروض ہونے کے باوجود مسکرا رہا ہے، اترا رہا ہے۔ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا، کہ وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں وہ اپنی عزت نفس بچا لے، اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگ جائے۔ کوئی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا، کہ اس کی محبت اور وفاداری، یا بیوی کی ہٹ دھرمی اور ضد، یا اس کی نرم دلی، اور بیوی بچوں کی خود غرضی، اسے یہ سب جینے پر مجبور کر رہی ہے۔ میرے خیال میں چند چور اچکوں کے علاوہ، کوئی کسی سے مانگنا نہیں چاہتا۔ بندہ جواری نہ ہو، شرابی نہ ہو، اور کوئی نہ کوئی کام دھندہ بھی کر رہا ہو، لیکن پھر بھی مانگ رہا ہو، تو سمجھ لیں اس کی بیوی اس کے بس میں نہیں ہے۔ 

ایسی پوسٹ پڑھ کر ہر وہ شخص اپنے بیوی بچوں پر سختی کر سکتا ہے، انہیں چھوڑ سکتا ہے، انہیں مار پیٹ سکتا ہے، اپنے باس سے لڑ سکتا ہے، نوکری چھوڑ سکتا ہے، چوری چکاری کر سکتا ہے، جو یہ سب کچھ اپنی خوشی کے لئے نہیں، اپنے بیوی بچوں کی خوشی کے لئے کر رہا ہے“۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں عام طور پر کومنٹ نہیں کرتا لیکن یہ اوپر والا کومنٹ میں نے ایک پوسٹ پر کیا ہے، جس کا مفہوم تھا، کہ لوگ اپنا قرض نہیں لوٹاتے، لیکن سیر سپاٹے اور ہلے گلے پر نکل جاتے ہیں ۔ 

چند ایک کو چھوڑ کر، اکثر مقروض بے بس ہوتے ہیں۔ ان میں چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ حالات ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہر آنے والا دن ان کی سختی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ ان کے خرچے ہر صورت میں ان کی آمدنی سے زیادہ ہوتے جاتے ہیں، چاہے ان کی آمدنی دو کروڑ ہو جائے۔ ان کے رشتہ دار، ان کی ضرورتیں، ان کی آفتیں، ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں۔ ان کے بیوی بچے ان کے کہنے میں نہیں ہوتے۔ 

انسان نرم دل ہو، اور اسے اپنی عزت نفس سے زیادہ اپنے بچوں کی خوشی عزیز ہو، تو وہ قرض ضرور لے گا۔ وہ اپنی بیوی کے چہرے پر کچھ لمحوں کی خوشی دیکھنے کے لئے چوری چھپے قرض کا تحفہ ضرور لائے گا۔ اس کا خیال ہوتا ہے، کہ حالات بس ایک دو مہینے، دو چار مہینے، ایک دو سال کے لئے ہی خراب ہوتے ہیں، پھر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کبھی اسے ضرورت سے زیادہ پیسے ملیں گے، تو وہ سب قرض لوٹا دے گا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ بیس پچیس تیس سال گزر جاتے ہیں۔ سخت دل، ظالم، ضدی، انا پرست قسم کے لوگ شائد ٹھیک رہتے ہیں۔ لیکن نرم دل۔ نرم دلی انسان کو بہت بری طرح مرواتی ہے۔ ایمانداری، وفاداری، سچ، نرم دلی وغیرہ کے امتحان ختم ہونے میں ہی نہیں آتے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، میں نے ساری زندگی ان دو ہاتھوں کا مطالعہ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں اس موضوع پر کوئی غیبی ڈاکٹرائن لکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہن میں جو لینے والے کا امیج بٹھایا ہوا ہے، وہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ لینے والے اور ضرورتمند کی نفسیات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

میں یہ نہیں کہتا کہ دینے والے نہیں ہیں، بہت ہیں، ہماری توقع سے بھی زیادہ ہیں، اور بہت اچھے ہیں، بہت نیک دل ہیں، لیکن بیچارے کسی ایسے امیج میں پھنسے ہوئے ہیں، کہ اس سے نکل نہیں پا رہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے ایسے لوگوں کو دینا چاہئے۔ یہ جو ان کو مستحقین کی شکل دکھا دی گئی ہے، کہ وہ ایسے ہوتے ہیں، اس شکل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور ارادوں کو نیک بنائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 




زندگی کی خوبصورتی یہی ہے

 

زندگی کی خوبصورتی یہی ہے کہ بندہ کسی صاحب نظر، کسی ولی کے پاس بیٹھنے لگے۔ زندگی کی خوشی بھی یہی ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ کوئی خوشی ہے نہ خوبصورتی۔ میں نے جو وقت والد صاحبؒ کے ساتھ گزارا، اور جو وقت ڈاکٹر صاحبؒ کے ساتھ گزارا، اور جو ڈاکٹر صاحبؒ کے کہنے پر دوسرے اللہ والوں کی زیارت میں گزارا، بس وہی وقت زندگی محسوس ہوتا ہے۔ باقی تو بس ایسے ہی ہے۔ اگر زندگی ان اللہ والوں سے خالی ہوتی تو کتنی ویران ہوتی۔ باقی تو کچھ نہیں ہے۔ آج بھی اسی تصور میں گھومنا پھرنا اچھا لگتا ہے۔

یونہی حسن کو چھوڑنے بس سٹاپ تک گیا تو دل کیا ڈاکٹر صاحبؒ کی قبر پر ہو آؤں۔ کافی قریب بھی پہنچ گیا، لیکن پھر واپس آ گیا۔ 

ڈاکٹر صاحبؒ کی صحبت میں جو محسوس ہوتا تھا، وہ اگرچہ اب نہیں رہا، لیکن اس دل میں کہیں یاد تو ہے نا اس کی۔ کبھی ڈاکٹر صاحبؒ کی صحبت کا نور، کبھی ان کے قرب کی خوشبو تو بسی ہی تھی نا اس دل میں۔ 

کبھی کبھی سوچتا ہوں بہت کچھ کھویا ہے میں نے۔ وہ خوشبو جو انیس سو اٹھاسی انانوے میں محسوس ہوا کرتی تھی ڈاکٹر صاحبؒ سے، اگر میں زندگی کے دوسرے تجربات میں نہ پڑتا، اسی خوشبو پر اکتفا کرتا، تو میرے اپنے وجود کا کیا عالم ہوتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صحبت اولیاء نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


مجھے اور کوئی مذہب نظر نہیں آتا

 

مجھے اور کوئی مذہب نظر نہیں آتا جس نے جسم کی صفائی ستھرائی، یا نفاست اور شائستگی پر اتنی توجہ دی ہو جتنی اسلام نے دی ہے۔ 

ایمان حضور پاک ﷺ  کے نور کی ایک کرن ہے، جو توجہ دینے سے ترقی کرتا ہے۔ بندہ اپنے آپ حضور پاک ﷺ  کی جسمانی سنتوں کو اپنانے لگتا ہے، ان کے حلیہ مبارک میں ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ 

اگر آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے، کہ آپ پاک صاف رہیں، آپ کے جسم پر کوئی نجاست نہ ہو، آپ غسل سے ہوں، آپ کے کپڑے پاک صاف ہوں، کوئی میل تک نہ ہو ان پر، اور آپ وضو سے ہوں، اور آپ نے داڑھی شرعی ترشوائی ہو، بال برابر کٹوائے ہوں، اور ناخن تراشے ہوں، اور دانت باقاعدہ صاف کیے ہوں، اور آپ کی خواہش ہو آپ سفید لباس پہنیں، اور خوشبو لگائیں، اور سرمہ لگائیں، اور سر پر ٹوپی یا عمامہ پہنیں، تو آپ اسلامی روحانیت میں داخل ہو چکے ہیں۔ 

اور اگر آپ یہ سب کر بھی لیں تو ہو سکتا ہے کسی مقام پر بھی براجمان ہوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایمان پر توجہ دینے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ