لیکن پچیس چھبیس سال گزرنے کے بعد مجھے لگتا ہے میں اوندھے منہ پڑا ہوں۔
مجھے اس کمپیریزن سے خوف آ گیا۔
”وہ حالت اس لئے تھی کہ تو اس میں درود شریف پڑھا کرتا تھا“ میرے اندر کسی نے سرگوشی کی۔
مجھے یاد آیا میں اس زمانے میں ایک کتاب پڑھا کرتا تھا درود شریف کی، سو درود شریف کا مجموعہ۔ میں ہر روز اسے ایک بار مکمل کر لیا کرتا تھا۔ پھر میں نے سو درود ابراہیمی بھی لکھ رکھے تھے۔ میں انہیں بھی ہر روز پڑھا کرتا تھا۔ کئی بار پڑھا کرتا تھا۔
مجھے یاد آیا میری یہ روٹین ختم ہو گئی، اور ساتھ ہی وہ نور اور خوش قسمتی کی علامتیں بھی ساری اڑ گئی کہیں۔ پھر کبھی وہ سب کچھ نصیب نہ ہوا۔ مجھے زندگی میں کبھی اتنے پیسے نہیں ملے کہ جمع ہو سکیں، سوائے اس دور کے۔ ان دنوں میرے پاس بہت زیادہ پیسے آ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا دل کیا میں نماز ختم کرتے ہی درود شریف کی کتاب ڈھونڈوں وہ، ڈاؤنلوڈ کروں کہیں سے، شائد پہلے کی کر رکھی ہو کہیں۔ بس وہ کتاب نکالوں اور پڑھنا شروع کر دوں۔ جو گزر گیا سو گزر گیا۔ آئندہ ہی سہی۔
بس یوں کہیں مجھے آئندہ کافی مدت کا لائحہ عمل مل گیا تھا۔
میں کسی قدر جلدی جلدی نماز سے باہر آیا، اور درود شریف کی کتابیں ڈھونڈنے لگا۔ عالم فقری صاحب کی مرتب کردہ۔ خزینہ درود شریف۔
میں نے پرانے فولڈر کھنگالنے کی بجائے، نئے سرے سے گوگل کیا۔ آرکائیو ڈاٹ آرگ پر مل گئی۔ میں نے ڈاؤنلوڈ کی اور پڑھنا شروع کر دیا۔ ساڑھے نو کا ٹائم تھا، ساڑھے گیارہ بجے تک میں مکمل کر چکا تھا۔ لیکن وہ کتاب پڑھتے ہوئے میں جس دنیا سے گزرا، وہ بیان سے باہر ہے۔ بس یوں سمجھیں جیسے برسوں سے سوکھی پڑی زمین پر بارش برس پڑی ہو۔ جل تھل ہو گیا ہو۔ وہ کتاب واقعی خزانہ ہے۔ بیش بہا خزانہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ان فیلنگز کا شائد کسی اگلی پوسٹ میں لکھوں، لیکن اس پوسٹ میں بس خزینہ درود شریف کی عظمت لکھنا چاہتا ہوں، جو لکھنے میں نہیں آ رہی۔ شائد اس لئے اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ یہ کتاب میرے دل میں کہیں محفوظ تھی اتنے سالوں سے۔ شائد میرے دل کا کوئی حصہ زندہ ہو گیا تھا دوبارہ۔
درود شریف کے اور بھی مجموعے ہیں۔ لیکن میں نے یہی ڈھونڈا، یہی۔ اسی پرنٹ میں۔ اسی ایڈیشن میں۔ اور واقعی وہ سب کچھ زندہ ہو گیا۔ سب کچھ دھل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو درود شریف کی محبتیں اور برکتیں عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment