میں نے دیکھا میرے سامنے ایک گٹر کا ڈھکن کچھ الٹا ہوا ہے، اور گاڑیاں ایک طرف سے کچھ ٹرن کاٹ کر گزر رہی ہیں۔ دوسری طرف بھی ایک گٹر تھا، جس کا ڈھکن الٹا تو نہیں تھا، لیکن گاڑی گزرنے سے آواز بہت پیدا ہو رہی تھی، اور لگتا تھا کسی بھاری گاڑی کے گزرنے سے الٹ بھی سکتا ہے۔
بہرحال میرے سامنے والے گٹر کا ڈھکن کچھ ٹوٹ بھی چکا تھا۔ مجھے لگا اگر اسی طرح رہا تو ٹوٹ بھی جائے گا، اور کسی کے نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ موٹر سائیکل تو بہت بری طرح گر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے وہ سینکڑوں کلپس یاد آ گئے، جو دوسرے ملکوں کے عوام پر بنے ہوئے ہیں، کہ کس طرح وہ اپنے ارد گرد کے چھوٹے چھوٹے کام خود کر دیتے ہیں۔ کوئی چھٹی کے دن سیمنٹ کی بوری اور دوسرا کچھ میٹریل گاڑی میں رکھ کر نکلتا ہے، اور سڑکوں کی معمولی توڑ پھوڑ ٹھیک کر آتا ہے۔ کوئی لٹکی ہوئی خطرناک تاروں کو باندھ دیتا ہے۔
میرے اندر بھی ایک جذبہ پیدا ہوا، اور میں نے آگے بڑھ کر گٹر کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ میں نے پاؤں سے زور ڈال کر دیکھا، کہ اگر اسے کدال وغیرہ سے بیلنس کیا جائے، تو ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ورنہ ڈھکن ٹوٹ جائے گا، اور نیا پتہ نہیں کب لگے۔
میرے پاس کدال وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا کوئی لوہے یا لکڑی کی چیز ہو جسے لیور بنا کر اس ڈھکن کو بیلنس کیا جا سکے۔
میں نے ادھر ادھر سے پاؤں رکھ کر چیک کیا تو اندازہ ہوا اس ڈھکن کے نیچے کوئی ٹوٹی ہوئی اینٹ کا ٹکڑا آ چکا ہے، جس کی وجہ سے وہ بیلنس نہیں بیٹھ رہا۔ اگر کوئی دوسرا آدمی ڈھکن اٹھائے، یا میرے پاس کدال وغیرہ ہو، اور میں اسے لیور بنا کر ڈھکن اٹھاؤں، تو اینٹ کا ٹکڑا نکالا جا سکتا تھا۔ لیکن فی الحال ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔
مجھے محسوس ہو رہا تھا، جیسے ارد گرد کے کچھ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ میرا دل تو کیا کہ واپس اپنی جگہ جا کر کھڑا ہو جاؤں، لیکن میں ایک کوشش ضرور کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے پورے زور سے اس ڈھکن کو اٹھانے کی کوشش کی۔ پہلی ایک دو کوششوں میں تو اٹھا نہ پایا، لیکن مجھے اندازہ ہو گیا، کہ اگر بھرپور کوشش کروں، تو اٹھا بھی سکتا ہوں۔ اس بار میں نے پورا زور لگا کر گٹر کا ڈھکن اٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ اس اینٹ کے ٹکڑے کو دھیکل کر نیچے پھینک دیا۔ فی الحال ڈھکن اپنی جگہ پر پھنس چکا تھا۔ میں نے ادھر ادھر سے پاؤں کا زور ڈال کر بیلنس کیا اور گارے سے بھرے ہاتھ لے کر واپس اپنی جگہ پر آ کھڑا ہوا۔
مجھے بڑی خوشی محسوس ہو رہی تھی، کہ میں نے بھی دوسرے ملکوں کے عوام کی طرح، اپنے ملک اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لئے کچھ اچھا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اب جب میں گاڑیوں کو اس ڈھکن سے گزرتا دیکھ رہا تھا، تو مجھے لگ رہا تھا، میں نے ان سب لوگوں کو اس ناگوار احساس سے بچا لیا ہے، جو ایسے گٹر کے ڈھکنوں سے بچنے کی کوشش میں گاڑیوں یا موٹر سائیکل والوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات یہ ہے کہ میں نے یہ سب اس لئے کیا، کہ میں نے وہ اچھے اچھے موٹیویشنل کلپس دیکھے ہوئے تھے۔ اگر میں نے وہ نہ دیکھے ہوتے تو میرے ذہن میں ایسا کرنے کی سوچ نہ آتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے اچھائی کا نظام۔ جب آپ کوئی اچھی اور پوزیٹو چیز شئیر کرتے ہیں، تو دوسروں کو بھی کہیں نہ کہیں انسپائر کرتے ہیں۔ وہ چائنہ امیرکا کی عوام کے بنائے ہوئے کلپس میرے ملک کے بھی نہیں تھے، لیکن میں انہیں دیکھ کر اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے لئے کچھ کرنے پر آمادہ اور تیار ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اچھائی دیکھنے، اور اچھائی پھیلانے کی رغبت نصیب فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment