Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

میرے مدرسے سے جب بچے اٹھ کر جاتے ہیں

 

میرے مدرسے سے جب بچے اٹھ کر جاتے ہیں، تو ایسے لگتا ہے جیسے میں کسی اور ہی دنیا سے واپس آ رہا ہوں۔ کیسی خوشی اور خوبصورتی کی دنیا ہوتی ہے بچوں کے قرآن پاک پڑھنے کی۔ میرے استاد محترم حضرت سید غفران علی شاہ صاحب کوئی پچھلے پچاس سال سے پڑھا رہے ہیں، اور صبح و شام پڑھا رہے ہیں، کیسی  فیلنگز ہوں گی ان کی۔ میں جب انہیں دور سے دیکھتا ہوں، تو ان کے پورے وجود کے گرد ایک نورانی ہالہ نظر آتا ہے۔  

قرآن پاک پڑھانے کی فیلنگز ایسی خوبصورت ہوں گی، اس کا مجھے کچھ اتنا زیادہ اندازہ نہیں تھا۔ یہ تو سب سے ہی اعلیٰ ہیں۔ قرآن پاک پڑھنا، حفظ کرنا، سب بہت اچھا تھا ، لیکن قرآن پاک پڑھانا تو کمال ہی ہو گیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں ابھی مدرسہ پوری طرح ایسٹبلش نہیں ہوا، پوری طرح ایسٹیبلش ہو جائے گا، باقاعدہ پچیس تیس بچے بیٹھے ہوں گے تو پتہ نہیں کیا عالم ہو گا۔ میں تو تصور کر کے ہی پھولا نہیں سماتا۔ اللہ تعالیٰ نے کیسی مہربانی کی ہے مجھ پر۔ ذالک فضل اللہ، یوتیہ من یشاء۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ 

میں یہ سب آپ لوگوں سے اس لئے شئیر کر رہا ہوں، کہ ایک تو میرا یقین ہے، کہ اچھی باتیں شئیر کرنی چاہئیں، اور دوسرا یہ کہ اگر آپ میں سے بھی کسی کا دل چاہ رہا ہو تو شروع کر لے، بہت اچھا ایکسپیرئنس ہے۔ بس اللہ تعالیٰ یہ کیف و سرور عطا فرماتا رہے ، اس جیسی بات نہیں ہے اور کوئی۔ 

یہ دنیا قرآن پاک پڑھنے پڑھانے میں کتنی خوبصورت ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو تدریس قرآن پاک کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


آج میرے مدرسے کا پہلا دن تھا


 آج میرے مدرسے کا پہلا دن تھا۔ میرے بیوی بچوں نے کہا کہ آپ ساری عمر سوچتے ہی رہے ہیں، بس اب شروع کر دیں۔ اپنے گھر کے نچلے پورشن میں شروع کر دیں۔ ابھی اسی طرح شروع کر دیں۔ ہم قرآن پاک، اور نورانی قاعدے، اور یسرنا القرآن وغیرہ کا بندوبست کر لیں گے کبھی۔ کوئی چٹائی اور دری بھی آ جائے گی، کوئی فلیکس بھی لگا لیں گے مدرسے کے نام کی، بس ابھی آپ شروع کر دیں۔ 

میری بیوی ایک ہمسائی کو کہہ آئی کہ آپ اپنے بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھنے کے لئے بھیجیں۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے فورا حامی بھر لی۔ بلکہ اس نے تو یہ بھی کہا، کہ شاہ جی سے کہیں کچھ بڑی بوڑھیوں کے لئے بھی وقت نکالیں، ہمیں بھی ضرورت ہے دہرائی کی، اور اچھی باتیں سیکھنے کی۔ 

میں حیران تھا کہ اتنا میڈیا اور اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود جو زندہ انسان سے، اپنے سامنے بیٹھے ہوئے انسان سے سننے کی بات ہے، وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا، کہ ایک بار ایک کمپنی کے مالک نے ایک مولوی صاحب سے درخواست کی کہ وہ صبح نو بجے اسے کچھ سبق دے جایا کریں، اس نے بچپن میں قرآن پاک نہیں پڑھا ہوا۔ وہ حیران رہ گیا جو اس کی کمپنی کے آدھے سے زیادہ لوگ اسی طرح کے نکلے۔ انہوں نے بھی بچپن میں نہیں پڑھا تھا۔ اور کچھ نے پڑھ کر کبھی دہرایا نہیں تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال اگر اللہ تعالیٰ یہ خوشی زندگی بھر کے لئے دے دے تو کیا ہی بات ہو جائے، بچے جب اونچی آواز میں قرآن پاک پڑھ رہے تھے، دہرا رہے تھے، تو جیسے میری روح ساتویں آسمان پر تھی۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ مجھے تو ویسے ہی مدرسے کے بچوں کی آواز سنائی دینے لگتی ہے بعض دفعہ۔ یہ تو واقعی میں سنائی دے رہی تھی۔ بہت ہی خوبصورت طریقہ تھا بچوں کے پڑھنے کا۔ میرے تو دل میں اتر گیا۔ 

میں تو کہوں گا آپ بھی کسی نہ کسی کو قرآن پاک پڑھانا شروع کر دیں اپنے ارد گرد، یا کسی سے پڑھنا شروع کر دیں۔ دونوں ہی تجربے بے مثال ہیں۔ 

میں نے بچوں کو کہا ہے کہ میں آپ سے انگلش بھی بولوں گا اور عربی بھی۔ آپ قرآن پاک کے دو تین لفظوں کا مطلب بھی یاد کر لیا کریں گے ہر روز۔ 

اور میں نے انہیں کہا کہ اپنے آپ کو ہر حالت اور ہر حال میں ایک اچھا مسلمان سمجھنا ہے۔ 

میں نے ایک ایک لفظ پر ان کی تعریف کی، کہ وہ بہت اچھا پڑھتے ہیں، ان کا حافظہ بہت اچھا ہے، انہیں یاد بہت جلدی ہوتا ہے۔ وہ بہت جلد سارا قرآن پاک پڑھ لیں گے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے کی خوش نصیبی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


پچھلے دنوں میں گیجٹس اور وجٹس کے

 

پچھلے دنوں میں گیجٹس اور وجٹس کے کوڈ لکھ رہا تھا، تو ایک بات پر بڑا حیران ہوتا تھا، کہ ایک کوڈ ایک بلاگ پر بہت اچھا چلتا تھا، لیکن دوسرے بلاگ پر فیل ہو جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی، کہ اس بلاگ پر استعمال کیے ہوئے دوسرے کوڈ اس سے کمپیٹیبل نہیں ہوتے تھے۔ 

پھر ایک اور بات بڑی عجیب ہوتی تھی، کہ ایک کوڈرائٹر کو کوئی پرمپٹ دیتا تھا، اور پہلی بار وہ کوڈ لکھتا تو بالکل عجیب سا، جو چل ہی نہ پاتا میرے سسٹم پر۔ لیکن انہی پرمپٹس پر دوسری بار لکھنے کو کہتا، تیسری، چوتھی، پانچویں بار لکھنے کو کہتا تو بہت عمدہ کوڈ سامنے آتا۔ جو میرے سسٹم پر بہترین چل رہا ہوتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں اب اتنا عقلمند ہو جانا چاہئے، اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ انسانوں میں بھی کمپیٹیبلٹی ہوتی ہے۔ ایک انسان ایک جگہ پر اچھا پرفارم نہیں کرتا، لیکن دوسری جگہ پر اچھا پرفارم کرتا ہے۔ ورکرز، ایمپلائیز، کوورکرز، باس، ان سب کا بھی یہی مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک کمپنی سے ایک ورکر کو نکال دیا جاتا ہے، لیکن دوسری کمپنی میں وہی ورکر حیران کر دیتا ہے اپنے کام سے۔ ہمیں اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو مارجنز دینے چاہئیں۔ ہمیں رعائتیں اور کنسیشنز دینے چاہئیں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ بہت سے لوگ صرف ہماری صحبت، ہمارے ساتھ، ہماری کمپنی کی وجہ سے غلط پرفارم کر رہے ہیں، غلط چل رہے  ہیں۔ اگر وہ کسی اور جگہ کسی اور کے ساتھ ہوتے تو بہت اچھا پرفارم کرتے۔ بعض دفعہ میاں بیوی محسوس کرتے، کہ اگر یہی لائف پارٹنر کسی دوسرے کی زندگی میں ہوتا تو کتنا قابل رشک ہوتا، کتنا خوبصورت چلتا۔ 

اللہ تعالیٰ نے ہماری کمپوزیشن میں ایک چیز رکھی ہے، جو یہ طے کرتی ہے، کہ ہماری زندگی میں کون سے لوگ اور چیزیں آئیں گی۔ کیسے راستے اور کیسی ٹریفک آئے گی۔ 

آپ کبھی غور کریں، کہ کروڑوں اربوں لوگوں میں سے آپ کی زندگی میں وہی چند سو لوگ آئے ہیں۔ ایک ہی طرح کے تقریبا۔ آپ دیکھتے اور سنتے تو ہزاروں لوگوں کو ہیں، لیکن آپ کی زندگی میں وہی چند سو لوگ ہوتے ہیں۔ ایون آنلائن ورلڈ میں بھی۔ ہزاروں ویبسائٹس ہیں، کروڑوں یوزرز ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں، جو کبھی آپ کے سامنے آ جائیں تو آپ حیران ہو جائیں، کہ یہ اب تک کہاں تھے۔ لیکن آنلائن ورلڈ میں بھی محض چند لوگ، چند گروپس، چند ویبسائٹس ہوتی ہیں، جو آپ کے سامنے آتی ہیں۔ ہزاروں گروپس ہیں جو سامنے آ جائیں تو آپ خوشی کے مارے اچھل پڑیں، لیکن وہ آپ سے اوجھل ہیں، وہ آپ کے لئے نہیں ہیں۔ اسے انٹرنیٹ کی دنیا کہتے ہیں۔ چیزیں اور انسان کس نوعیت کی بنا پر کونیکٹ ہوتے ہیں، ہمیں ابھی یہ چیز ڈسکور کرنی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں کو کمپیٹیبل لوگوں اور چیزوں سے مزین فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ